کینیا: 99 سالہ خاتون نے ڈاکٹر بننے کیلئے اسکول میں داخلہ لے لیا


0

مشہور کہاوت ہے کہ تعلیم کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں، بس اس کے لئے شوق اور لگن ہونا چاہیے۔ کینیا میں 99 سالہ خاتون نے اس بات کو سچ کر دکھایا ہے، پریسیلا سیٹینی نامی بچپن میں غربت کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر پائیں تھیں جبکہ جوانی میں پیٹ بھرنے کیلئے روزی روٹی کی تلاش میں اپنی اس خواہش کو پورا نہیں کرسکیں۔ اب انہوں نے 99 برس کی عمر میں دادی بننے کے بعد اپنا ڈاکٹر بننے کا خواب پورا کرنے کے لئے پرائمری اسکول میں داخلہ لیا ہے جہاں وہ اپنے پڑ پوتوں کے عمر کے طلبا کے ساتھ تعلیم حاصل کررہی ہیں۔ 

ایک 99 سالہ دادی پریسیلا سیٹینی نے پرائمری اسکول میں داخلہ لے لیا۔ کینیا کی حکومت نے اسکولوں کی کمی اور غربت کے باعث تعلیم حاصل نہ کر پانے والے ضعیف افراد کے لیے 2003 میں سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا تھا جس کے بعد کئی قصبوں اور دیہاتوں میں اسکول کھل گئے ہیں۔

چنانچہ پریسیلا سیٹینی کی اپنے قصبے میں اسکول کھلنے پر تعلیم حاصل کرنے کی خواہش نے پھر سر اٹھایا اور ایک ڈرامائی صورت حال نے ان کی اس خواہش کو پورا کرنے کا موقع دیدیا، ہوا کچھ اس طرح کہ ان کی ایک پوتی نے حاملہ ہونے کی وجہ سے اسکول جانا چھوڑ دیا جس پر پریسیلا سیٹینی نے پوتی کی جگہ اسکول میں داخلہ لے لیا۔

اس سے پہلے بھی سوشل میڈیا پر لیونر نامی 98 برس کی خاتون کی خبر کافی وائرل ہوئی تھی جنہوں نے پرائمری اسکول میں داخلہ لیکر سب کو حیران کردیا تھا۔معمر خاتون کا کہنا تھا کہ اب وہ دل لگا کر تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں اوراپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر بھی سیکھنا چاہتی ہیں۔

بلاشبہ تعلیم حاصل کرنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے جس سے اسے محروم نہیں کیاجاسکتا۔پاکستان میں بھی تعلیم بالغاں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ بچپن میں کسی وجہ سے تعلیم سے محروم رہ جانے والے افراد عمر کے اس حصے میں تعلیم حاصل کر سکیں۔ انہوں نے عملی زندگی سے بلاشبہ بہت کچھ سیکھا ہو گا مگر رسمی تعلیم حاصل کرنا بھی از حد ضروری ہے تاکہ وہ دور جدید کے تقاضوں کے مطابق اپنی آنے والی نسل کی تربیت کرسکیں۔ 99 سالہ پریسیلا سیٹینی کی طرح ہمارے ملک کے محمد بوٹا کی کہانی نے بھی لوگوں کی خوب توجہ حاصل کی تھی، انہوں نے 42 سال بعد ڈاکٹر بننے کا خواب پورا کردیکھایا اور ایم بی بی ایس کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔

محمد بوٹا ولدعلی محمد کا تعلق راولپنڈی سے ہے ، انہوں نے 1979 میں لاہور کے میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس کے طالب علم کے طور پرداخلہ لیا ،1981 میں انہوں نے راولپنڈی میڈیکل کالج میں مائیگریشن کرالی۔ یونیورسٹی پالیسی کے تحت دس سال تک داخل ہونے والا طالبعلم فیسیں ادا کرکے دوبارہ اسی داخلہ میں امتحان دے سکتا ہے اسی پالیسی کے تحت وہ مسلسل یونیورسٹی کی فیسیں ادا کرتے رہے۔

اس دوران انہوں نےایم بی بی ایس کے امتحانات بھی دئیے لیکن کامیابی نہ مل سکی۔ پھر 2020 میں ایک بار پھر انہوں نے امتحان کےلیے داخلہ بھجوایا اور 2021 میں 1700 میں سے 984 نمبر لیکر کامیابی حاصل کی اپنی اس کامیابی پر محمد بوٹا کا کہنا ہےکہ مسلسل جدوجہد کے بعد بالآخر اللہ نے ان کو سرخرو کیا اور وہ ڈاکٹر بن کر انسانیت کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *