طاقتور سمندری طوفان جو کراچی کے ساحل سے ٹکرائے بغیر رُخ موڑ گئے


0

قدرتی آفات جن میں سمندری طوفان شامل ہیں جب آتے ہیں تو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلاتے ہیں ۔سمندر میں یہ سائیکلون خود بہ خود پیدا ہوتے ہیں اور پھر شدت اختیار کر جاتے ہیں اور کہیں تویہ سمندری طوفان پوری شدت سے ساحل سے ٹکرا جاتے ہیں جب کہ اکثر مقامات پر یہ صرف اپنے اثرات دیکھاتے ہیں جس کے نتیجے میں تیز ہواؤں اور موسلادھار بارشیں ہوتی ہیں اور سیلابی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے اور ہلاکتوں کے علاوہ کئی افراد بے گھر ہو جاتے ہیں ۔لیکن دیگر ممالک کے نسبت کراچی کا ساحل ان طوفانوں کی تباہ کاریوں سے ہمیشہ محفوظ رہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ کراچی کے ساحل پر قدرت کا کوئی خاص کرم ہے کہ طاقتور ترین سمندری طوفان بھی یہاں صرف اپنے اثرات دیکھا کر رُخ موڑ لیتے ہیں جب کہ یہی طوفان دوسرے خطوں میں بڑے پیمانے پر تباہی مچاتے ہیں ۔

حال ہی میں بحیرہ عرب کے جنوب مشرق میں ہوا کا کم دباؤ طوفان میں تبدیل ہوگیا ہے جس کے باعث کراچی سمیت سندھ کے مختلف شہروں میں بارش کا امکان ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق تاؤتے نامی یہ سمندری طوفان شدت اختیار کرکے شدید سمندری طوفان میں تبدیل ہوگیا جو بھارتی گجرات کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اس طوفان سے بھارت کی 6 ریاستوں کے متاثر ہونے کے خدشے کے پیش نظر بڑی تعداد میں عوام نے نقل مکانی شروع کردی ہے۔  

Image Source: The News

کراچی سے 1300 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود طوفان 18 گھنٹے میں اور بھی شدت اختیار کرے گا، جس سے ساحلی پٹی پر 17 سے 20 مئی تک آندھی کے ساتھ بارش کا امکان ہے۔ اس طوفان کے سبب کراچی میں ہوائیں 40 سے 50 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل سکتی ہیں جس کے باعث سائن بورڈ گرنے اور کچی تعمیرات منہدم ہونے کے خدشات ہیں جب کہ جناح انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر بھی ہائی الرٹ جاری کر دیا گیا ہے۔ اس طوفان کے باعث کراچی شہر کا درجہ حرارت بڑھنے کی بھی پیشگوئی کی گئی ہے اور متوقع ہیٹ ویو کے سبب بلدیہ عظمیٰ کے مختلف محکموں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔

اگر میں ماضی پر نظر ڈالیں تو اس سے قبل جون 2019 میں بحیرہ عرب  میں  سمندری طوفان “وایو” پیدا ہوا تھا، جس کے باعث اندرون سندھ تیز ہواؤں کے ساتھ بارشیں ہوئیں تھیں اور کراچی میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہوا تھا۔ سمندری طوفان وایو نے کراچی کی ساحلی پٹی پر صرف اپنے اثرات دیکھائے تھے جس سے ہاکس بے، سینڈزپٹ پر سمندر کا پانی سڑک پر آگیا تھا اور سمندری لہروں سے کئی ہٹس میں بھی پانی داخل ہوگیا تھا۔ سمندری پانی سڑک پر آنے کے باعث لوگوں کی گاڑیاں بھی پھنس گئیں اور کئی جگہوں پر گڑھے پڑ گئے تھے۔

Image Source: Tribune

اس کے بعد اسی سال اکتوبر کے مہینے میں بحیرۂ عرب میں سائیکلون “کیار‘‘ پیدا ہوا تھا جس کا رخ کراچی کی جانب تھا تاہم گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ طوفان نے اپنا رخ یمن کی جانب تبدیل کیا تاہم وہ طوفان کسی ساحل سے ٹکرائے بغیر ہی ختم ہو گیا تھا ۔اس طاقتور ترین سمندری طوفان سے پاکستان کی ساحلی پٹی پر تیز ہواؤں کے سبب سمندر میں طغیانی آئی اور کراچی سمیت سندھ کی دیگر ساحلی پٹی پر بستیاں زیر آب آگئی تھیں۔

ابراہیم حیدری کے علاقے ریڑھی گوٹھ، لٹھ بستی اور چشتہ گوٹھ کے گھروں میں سمندری پانی داخل ہوگیا تھا، جس سے مکانات کو نقصان پہنچا اور ماہی گیروں کی بستیاں سمندری پانی میں ڈوب گئیں تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا اور مقامی افراد کو محفوظ جگہ منتقل کر دیا گیا مگر غریب مچھیروں کو اذیت ناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ جب کہ اس سمندری طوفان سے کراچی کے ساحل ہاکس بے، پیراڈائز پوائنٹ اور دو دریا وغیرہ پر پانی ساحل سے سڑک پر آگیا تھا۔

علاوہ ازیں 2010 میں سمندری طوفان “پٹ” بحیرہ عرب میں پیدا ہوا جو پاکستان کی ساحلی پٹی سے ٹکرایا تو نہیں لیکن اس کے اثرات پاکستانی ساحلی علاقے پر ظاہر ہوئے ۔اس سائیکلون سے بلوچستان کے جنوبی ساحلی علاقوں میں تیز اور طوفانی بارشوں ہوئیں جس نے بلوچستان کے مغربی ساحلی علاقے گودار، پسنی اور جیونی بری طرح سے متاثر کیا جس کے نتیجے میں ان علاقوں میں سیلاب آگیا تھا۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *