شہر کے ایک متوسط علاقے کے ایک چھوٹے سے گھر کے صحن میں پیپل کا ایک درخت اپنی باہیں پھیلائے شان و شوکت سے کھڑا تھا۔اسی درخت کی ٹھنڈی چھاؤں میں ایک لڑکی جس کی عمر پندرہ سال تھی اپنا
سکول کا کام پھیلائے بیٹھی تھی۔
” ٹرن ٹرن ۔”
دروازے پر گھنٹی بجی۔
”کرن بیٹا دروازہ کھولنا زرا۔”
کرن کی امی نے کچن سے اواز لگائی۔
”جی امی میں ابھی کھولتی ہوں۔”
کرن نے فوراً دروازے کا رخ کیا۔
کرن اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی۔اکلوتے ہونے کی وجہ سے وہ ان کی بہت لاڈلی بھی تھی۔کرن ایک نہایت تمیز دار لڑکی تھی۔ وہ ہر ایک سے ادب سے پیش آتی اور کبھی سخت لہجے میں بات نہ کرتی ۔پر اس کی ایک بہت بری عادت تھی۔وہ ہر چھوٹی بات پر جھوٹ بولتی تھی۔وہ اتنی آسانی سے جھوٹ بول لیتی کہ اس کا جھوٹ پکڑا
بھی نہ جاتا۔اس کی یہ بری عادت اب پختہ ہو چکی تھی۔اگر کبھی اس کا کوئی چھوٹا موٹا جھوٹ پکڑا بھی جاتا تو وہ امی ابو کے لاڈ کا فا ئدہ اٹھا کر ڈانٹ سے بچ جاتی۔
کرن نے دروازہ کھولا تو سامنے اس کے با باجان کھڑے تھے۔
”السلام و علیکم بابا جان!”
”وعلیکم السلام ، کیسی ہے میری پیاری گڑیا؟”
اپنی لاڈلی بیٹی کو دیکھ کر ان کا چہرا خو شی سے کھل اٹھا۔ انہوں نے محبت سے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا۔
”میں بالکل ٹھیک ہوں بابا جان۔ لائیں یہ سامان مجھے دے دیجئے۔”
کرن نے سامان کا تھیلا ان کے ہاتھ سے لیا اور کچن میں چلی گئی۔
شام کا وقت تھا۔ کرن اور اس کی امی کچن میں شام کی چائے کی تیاری میں مصروف تھیں۔
” بیٹا کرن ! وہ ساتھ والی گلی میں سلیمہ آپا رہتی ہیں نا جو ہمارے کپڑے سیتی ہیں، ان کے پاس میرا ایک سوٹ سلنے کو پڑا ہے۔ یہ دو ہزار روپے پکڑو، میرا سوٹ بھی لے آؤ اوہ انہیں سوٹ کے پیسے بھی دے دینا۔”
امی جان نے کرن سے کہا۔
” ٹھیک ہے امی میں ابھی جا کر سوٹ بھی لے آتی ہوں اورپیسے بھی دے دوں گی۔”
یہ کہہ کر کرن نے سر پر دوپٹہ اوڑھا اور پیسے لیے سلیمہ آپا کے گھر روانہ ہو گئی۔ راستے میں اسے اس کی کچھ سہیلیاں ملیں تو وہ کچھ دیر ان سے سلام دعا کرنے لگی۔آخر کار وہ سلیمہ آپا کے گھر پہنچ گئی۔پر جیسے ہی اس نے دروازے پر دستک دینے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو اسے معلوم ہوا کے پیسے تو اس کے ہاتھ میں ہیں ہی نہیں۔یہ دیکھ کر وہ بے حد پریشان ہوئی۔ اس نے آس پاس بھی پیسوں کو تلاش کیا پر وہ اسے کہیں نہ ملے۔اسے اس بات کا ڈر تھا کہ امی تو اسے بہت ڈانٹیں گی۔وہ کیا سوچیں گی کہ ان کی بیٹی اتنی لا پرواہ ہے کہ اس سے زرا سے پیسے بھی نہیں سنبھالے گئے۔وہ واپس اپنے گھر کی طرف چلنے لگی۔ سارا رستہ وہ یہی سوچتی رہی کہ وہ امی کو کیا جواب دے گی۔ آخرکار اس کے ذہن میں ایک ترکیب سوجھی۔گھر پہنچ کر امی نے جب سوٹ کے متعلق پوچھا تو کرن نے کہا۔
”سوٹ کی کچھ سلائی ابھی باقی تھی۔سلیمہ آنٹی کہہ رہیں تھیں کہ کل تک مکمل ہوگا تو لے جانا۔اور امی وہ کچھ پریشان دکھائی دے رہیں تھیں۔ میں نے پوچھا تو کہنے لگیں کہ ان کے مالی حالات کچھ ٹھیک نہیں چل رہے۔انہوں نے کچھ پیسے ادھار دینے کو کہا ہے اور کہتی ہیں کہ جلد لوٹا دیں گی۔ وہ کافی شرمندگی محسوس کر رہیں تھیں۔میں نے انہیں سلاسہ دیا اور پیسوں کی یقین دہانی بھی کروائی ہے۔ امی ویسے بھی وہ اپنا یہ گھر بیچ کر کرایے کے مکان میں جا رہیں ہیں۔ ہمیں ان کی مدد کرنی چاہیے۔ ”
” ہاں بیٹا تم ٹھیک کہتی ہو۔ایسے مشکل حالات میں ہمیں ضرور ان کے کام آنا چاہیئے۔ تم یہ دو ہزار روپے رکھ لو ، کل سوٹ لینے جانا یاد سے ساتھ لے جانا۔ بلکہ میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گی۔”
کرن کی امی نے استفسار کیا۔
”نہیں نہیں امی آپ ساتھ مت جانا۔ ایسے وہ بہت برا محسوس کریں گی۔شاید اسی لیے یہ بات انہوں نے مجھ سے کہی کیوں کہ وہ آپ سے یوں مانگنا نہیں چاہتیں۔”
کرن نے فوراً بات سنبھالی۔
”ٹھیک ہے بیٹا، جیسے تم چاہو۔ اور یاد آیا کیا تم نے انہیں سوٹ کے پیسے دے دیے تھے؟ ”
امی نے کرن سے پوچھا۔
”جی ہاں امی میں نے پیسے دے دیے تھے۔”
اس نے صاف جھوٹ بول دیا۔
اگلے دن کرن نے سلیمہ آنٹی کو پیسے دیے اور بھی لے آئی۔اسے یہ لگتا تھا کہ سلیمہ آنٹی اس محلّے سے چلی جائیں گی اور امی ان کی مجبوری کی وجہ سے کبھی ان سے پیسے واپس نہیں مانگیں گی۔اس طرح ان کو اصل بات کا علم ہی نہیں ہو پائے گا۔ اس واقعے کے کچھ روز بعد سلیمہ آنٹی کرن کے امی سے ملنے اس کے گھر بھی آئیں تھیں پر اپنے جھوٹ کو چھپانے کے لیے کرن نے بہانہ بنا کر کہ ” امی تو گھر پر ہی موجود نہیں ہیں” انہیں دروازے سے ہی چلتا کیا۔
ایک دفعہ بازار سے واپسی پر کرن کی امی کی راستے میں سلیمہ آنٹی سے ملاقات ہوئی۔
” ارے سلیمہ آپا کیسی ہیں آپ؟ آپ تو غائب ہی ہو گئی ہیں۔ اتنے دن ہو گئے کوئی ملاقات ہی نہیں ہوئی آپ سے۔”
کرن کی امی نے سلیمہ آپا سے مخاطب ہو کر کہا۔
”میں ٹھیک ہوں اللہ کا شکر ہے۔اور جہاں تک غائب ہونے کی بات ہے تو وہ آپ ہوئی ہیں۔ میں تو آپ کے گھر بھی آئی تھی آپ سے ملنے پر کی بیٹی سے پتا چلا کہ آپ تو گھر پر ہی موجود نہیں ہیں۔”
سلیمہ آپا نے جواب دیا۔
مزید پڑھیں: بہتان
”اچھا، شاید میں ہی کہیں گئی ہوں گی ۔آپا برا مت مانیئے گا پر آپ سے ایک بات کہنی تھی۔ مجھے میرے دو ہزار روپے لوٹا دیجیئے جو میں نے آپ کو ادھار دیے تھے۔ دراصل آج کل تھوڑا ہاتھ تنگ ہے ورنہ میں کبھی واپس نا لیتی۔”
کرن کی امی نے کہا۔
” معاف کیجیئے گا بہن پر آپ نے تو مجھے کوئی رقم ادھار نہیں دی۔شاید آپ کو ئی غلط فہمی ہوئی ہے۔”
سلیمہ آپا نے جواب دیا۔
کرن کی امی کو یہ سن کر حیرت کا جھٹکا لگا پر انہوں نے بات سنبھالتے ہوئے کہا۔
”آپ درست کہہ رہیں ہیں شاید مجھے ہی کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی۔چلیں میں گھر چلتی ہوں۔ کرن کے بابا بھی گھر آنے والے ہوں گے۔”
کرن کی امی گھر کی طرف چل پڑیں۔ وہ اس الجھن کا شکار تھیں کہ آخر ماجرہ کیا ہے۔ گھر پہنچتے ساتھ ہی انہوں نے کرن کو بلایا اور اس سے پوچھا۔
”کرن مجھے سچ سچ بتاؤ، کیا سلیمہ آپا مجھ سے ملنے گھر آئیں تھی؟، کیا انہوں نے اس روز تم سے کوئی ادھار مانگا تھا؟”
امی نے کرن سے سخت لہجے میں پوچھا۔
”امی وہ میں آپ کو بتانے ہی والی تھی وہ میں۔۔۔۔۔”
کرن منمنائی۔
”کرن میں کہتی ہوں مجھے سچ بتاؤ۔”
اب امی کی آواز اونچی ہو گئی تھی۔ ان کی آواز سن کر بابا جان بھی کمرے میں آگئے تھے۔
” کیا ہوا ہے ۔ اس طرح کیوں چلا رہیں ہیں آپ کرن پر۔ ”
مزید پڑھیں: شرارت کا نتیجہ
اس دفعہ بابا جان بولے۔
” آپ کرن سے خود ہی پوچھ لیں۔”
کرن کی امی شدید غصے میں تھیں۔
” میری گڑیا بتاؤ کیا ہوا ہے؟”
بابا جان نے نرمی سے کرن کو مخاطب کیا۔
کرن امی بابا کو اس طرح دیکھ کر سہم گئی اور روتے روتے اسنے ساری کہانی انہیں سچ سچ سنا ڈالی اور معافی بھی مانگنے لگی۔ امی بابا کوکرن کی یہ حرکت سن کر بہت دکھ ہوا۔امی دکھی لہجے میں بولیں۔
” کرن آ پ نے مجھے بہت مایوس کیا ہے ۔ کیا ہوتا اگر آپ مجھے پیسے کھو جانے کا بتا دیتیں ۔ اس طرح آپ کو اپنے جھوٹ کو چھپانے کے لیے سلیمہ آپا کو جھوٹ کہہ کر انہیں گھر سے نہ بھیجنا پڑتا۔ میری اتنی اچھی عزیزہ کے ساتھ آپ نے یوں کیا۔کیا میں نے آپ کو جھوٹ بولنا سکھایا ہے؟”
کرن کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسوں بہہ رہے تھے۔ کرن کو یوں روتا دیکھ کر بابا جان امی کی طرف دیکھا اور کہنے لگے کہنے لگے۔
”بیگم ایک آخری بار کرن کو معاف کر دیتے ہیں۔”
کرن کی امی نے بھی اس کو معاف کر دیا آئندہ کبھی جھوٹ نہ بولنے کی تاکید کی۔ کرن نے بھی امی بابا کو یقین دلایا کے وہ کبھی جھوٹ نہیں بولے گی اور ایسے کاموں سے اجتناب کرے گی۔
پیارے بچوں ! ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے کئی جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔ اس لیے ہمیں ہمیشہ سچ بولنا چاہیے۔ورنہ آپ کو بھی کرن جیسی صورتحال کا سامنا نا کرنا پڑے۔
0 Comments