کوئی مشکل میرے حوصلے اور عزم کو نہیں توڑ سکتی، جمیلہ خاتون


0

گاڑی کھڑی کریں تو مڈ گارڈ سے بتا دیتی ہوں کہ گاڑی کتنے ٹائم چلے گی۔ یہ کسی مرد مکینک کا نہیں بلکہ جمیلہ خاتون کا تجربہ ہے جو اپنے گھر کی کفالت کے لئے سڑک کنارے موٹر سائیکلوں کے انجن سروس کرنے کے ساتھ آئل چینج کرتی ہیں۔

زندگی جہد مسلسل کا نام ہے لیکن زندگی کی مشکلات کے درمیان میں آسانی کیسے ڈھونڈنی ہے یہ کوئی اس باہمت خاتون سے پوچھے جو شوہر اور جوان بیٹے کی موت کا صدمہ لئے ہر روز نئے عزم کے ساتھ گھر سے نکلتی ہے۔ بلاشبہ کسی بھی خاتون کے لئے یہ کام آسان نہیں لیکن مجبوری اور حالات کو بدلنے کا حوصلہ انسان سے مشکل کام بھی کروا لیتا ہے۔ جمیلہ خاتون اپنے اکلوتے بیٹے کی موت کے بعد اپنی بیوہ بہو اور پوتے پوتیوں کا پیٹ پالنے کے لئے دن رات محنت کر رہی ہیں۔

Image Source: Screengrab

اپنے علاقے میں آئل والی آنٹی کے نام سے مشہور جمیلہ خاتون نے آئل چینج کرنے کا کام کب اور کیسے شروع کیا؟ اس بارے میں کہتی ہیں کہ جب ان کا بیٹا 12 سال کا تھا تو ان شوہر کا انتقال ہوگیا تو رشتے داروں نے کہا کہ اپنا بوجھ خود اٹھاؤ اس کے بعد انہوں نے کمر کس لی ، پکوڑے سموسے بیچے ، کولڈرنک بیچنے کا کام کیا، اخباروں کا کام بھی کیا پھر موٹر سائیکل کی سروس اور آئل تبدیل کرنے کے کام میں منافع نظر آیا تو انہوں نے کئی سال تک اس کام کو اچھے سے سیکھا۔ اس دوران لوگوں نے ان کا حوصلہ پست کرنے کی ہر ممکن کوشش کی یہاں تک کہا کہ یہ کام نہیں کرسکتیں لیکن وہ ٹھان چکی تھی اس لئے پوری دلجمعی سے یہ کام سیکھا اور پھر اپنا کام شروع کیا۔

Image Source: Screengrab

گھر سے نکلنے والی ہر عورت کا اچھے برے مردوں سے واسطہ پڑتا ہے اس بارے میں جمیلہ خاتون کہتی ہیں کہ ان کے پاس کئی مرد آتے ہیں جن میں کئی اچھے تو کچھ برے بھی ہوتے ہیں، انسانیت کے ناطے کئی لوگ تو ان کی مدد بھی کر جاتے ہیں جبکہ کچھ ان کی عمر کا لحاظ کئے بغیر انہیں دوستی کی پیشکش کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کو وہ اچھے سے سبق سیکھا دیتی ہیں۔

روزانہ کی اس مشقت سے جمیلہ خاتون کےہاتھ پتھر جیسے ہوگئے ہیں ، کام کرتے ہوئے ان کا برقعہ روزانہ سیلینسر سے جلتا ہے لیکن ان کا حوصلہ کم نہیں ہورہا بلکہ یہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ کہتی ہیں کہ حالات سے تنگ آکر کام کرنا نہیں چھوڑ سکتی ، مجھے محنت سے کوئی عار نہیں جب تک جان باقی ہے محنت کرتی رہوں گی کیونکہ مجھے اپنے بچوں کو پالنا ہے ، انہیب بڑا کرنا ہے اوران کو کسی کا محتاج نہیں بنانا۔

Image Source: Screengrab

آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی اور غربت سے پریشان ہمارے معاشرے میں کئی خواتین اپنے معاشی حالات بہتر کرنے کے لئے محنت کرنا چاہتی لیکن انہیں کئی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اکثر گھرانوں میں لوگ کیا کہیں گے کی وجہ سے عورتوں کو کام کرنے سے روکا جاتا ہے ، اس سوچ پر کئی تو اپنا دل مار کے بیٹھ جاتی ہیں جبکہ کچھ اپنے حالات بدلنے کے لئےاس سوچ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے مشکلات سے نبردآزما ہونے کے لئے آگے بڑھتی ہیں اور پھر یہی خواتین سب کے لئے مثال بن جاتی ہیں۔

حال ہی میں ایسی ہی ایک اور باہمت خاتون اور بیوی کی کہانی سامنے آئی، جنہیں ناصرف پاکستان کی پہلی ناصرف موبائل مکینک ہونے کا اعزاز حاصل ہے بلکہ وہ اپنے شوہر کا شانہ بشانہ انداز میں ہاتھ بھی بٹارہی ہیں۔ فیصل آباد کی رہائشی عاصمہ نے موبائل ریپیرنگ کا باقاعدہ کورس کیا اور سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے بعد اپنی دکان کھولی ہے۔

کچھ عرصہ قبل شہر کراچی سے تعلق رکھنے والی ایک فاطمہ نازش نامی خاتون کی کہانی سوشل میڈیا پر کافی وائرل ہوئی جنہوں نے مالی پریشانیاں دور کرنے کے لئے تندور لگالیا۔ فاطمہ نازش چار بچوں کی ماں ہیں اور اپنے بچوں کی اچھی پرورش اور گھریلو مالی حالات بہتر کرنے کے لئے تندور کی دکان کھول کر باقاعدہ اپنے بزنس کا آغاز کیا۔

Story Courtesy: Aaro


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *