سوشل میڈیا پوسٹ، میکرونی بیچنے والے نوجوان کی مدد کا ذریعہ بن گئی


0

موجودہ دور میں سوشل میڈیا کسی نعمت سے کم نہیں ہے، اس پلیٹ فارم کا مثبت استعمال بےشمار لوگوں کی تقدیریں بدل چکا ہے۔ ایسا ہی کچھ چوہدری ظہیر جان کے ساتھ بھی دیکھا گیا، جو اسلام آباد کے علاقے جی-9 مرکز میں پچھلے ایک ماہ سے گھر کے بنے ہوئے میکرونی بیچ رہے تھے، انہوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ سوشل میڈیا کی محض ایک پوسٹ ان کی زندگی بدل دے گی اور خریداروں کا ہجوم آجائے گا۔

تفصیلات کے مطابق 24 نومبر کو ایک ٹوئیٹر صارف کی جانب سے اپنے اکاؤنٹ پر مذکورہ میکرونی اسٹال کے حوالے سے ایک پوسٹ شئیر کی گئی تھی۔

چوہدری ظہیر جان جو سرخ مہران کار سے میکرونی کے ڈبوں کو بیچا کرتے ہیں، ایک روز جب انہوں نے معمول کے مطابق مال کے باہر گاڑی کی تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہے گئے کہ ان کے آنے سے پہلے ہی گاہک ان کا انتظار کر رہے تھے۔ ان کے میکرونی کے ڈبے محض دو ہی گھنٹے میں ختم ہوگئے لہذا وہ جلدی چلے گئے، جس کے بعد بہت سے صارفین انہیں میسجز کئے اور کی لوکیشن کے حوالے سے دریافت کیا۔

ڈان امیجز سے بات کرتے ہوئے چوہدری ظہیر جان کا کہنا تھا کہ وہ ان لوگوں کے شکر گزار ہیں، جنہوں نے ان کی تصویر اور ان کی کہانی کو شئیر کیا۔ انہیں اب بہت اچھا رسپانس مل رہا ہے۔

Image Source: Dawn Images

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہر روز، وہ اور اس کا چھوٹا بھائی اپنی کار میں میکرونی کے 18 سے 20 سنگل سرونگ بکس لاتے ہیں۔ وہ انہیں 100 روپے میں فروخت کرتے ہیں۔ گاڑی کی چھت پر تین بکس ایک وقت میں رکھتے ہیں اور پھر وہ شام 5 بجے سے رات 10 بجے تک گاہکوں کا انتظار کرتا ہے۔

Image Source: Dawn Images

اس موقع چوہدری ظہیر جان نے بتایا کہ اس نے پرائیویٹ طور پر انٹرمیڈیٹ کیا ہے، انہوں نے یہ سب اپنے والد کے مالی مدد کے طور پر شروع کیا ہے، ان کے والد کی آمدن محض 25 ہزار روپے ہے، جو اکثر اوقات کافی نہیں ہوتا ہے، ان کے گھر میں 6 افراد ہیں۔ یہ میکرونی روزانہ ان کی والدہ اور چھوٹی بہن تیار کرتی ہیں۔

نوجوان نے مزید بتایا کہ زیادہ تر مقامات پر برگر، فرائز، چاول اور چکن کے پکوان فروخت ہو رہے ہیں، وہ کچھ مختلف بیچنا چارہے تھے اور اس سے مدد ملی اور میری والدہ اور بہن کو اچھے میکرونی بنانا آگئے۔

Image Source: Dawn Images

میکرونی کی قیمت کو لیکر چوہدری ظہیر جان نے کہا کہ وہ چاہتے تھے کہ ان کے پروڈکٹ سب خرید سکیں، کئی لوگوں ان سے کہا کہ وہ اپنی پروڈکٹ کافی کم قیمت میں بیچ رہے ہیں البتہ وہ چاہتے ہیں کہ ہر کوئی ان میکرونی کھائے اور ان کا ذائقہ لے سکے۔

اس دوران، وہ کاروبار کو وسعت دینے اور اسپگیٹی جیسے دیگر پکوانوں کو شامل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ فوڈ ایپ کے کچھ نمائندوں نے بھی ان سے رابطہ کیا ہے، اس حوالے سے بات چیت جاری ہے۔

جب کسی اچھے مقصد کے لیے استعمال کیا جائے تو، سوشل میڈیا واقعی بہت طاقتور ہو سکتا ہے۔ ایک ٹویٹر پوسٹ اور ایک دل دہلا دینے والی کہانی نے چوہدری ظہیر جان کے اور ان کی والدہ کی میکرونی فروخت کرنے کے کاروبار کو بڑھانے میں کافی مدد کی ہے۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *