وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور کی کھلم کھلا قانون کی خلاف ورزی، ویڈیو وائرل


0

کم سن بچوں کو ہمیشہ ہی والدین کی توجہ اور دھیان کی ضرورت ہوتی ہے یا یوں کہیں جب بچے چھوٹے ہوتے ہیں تو والدین کی ذمہ دایاں اس وقت سب سے زیادہ ہوتی ہیں کیونکہ والدین کی زرا سی لاپرواہی یا ڈھیل انہیں مستقبل میں کسی بڑی مشکل میں ڈال سکتی ہے۔ لیکن ہمارے ملک میں اعلی شخصیات شاید اس خوف سے آزاد اور قانون سے بالاتر ہیں۔ جس کی سب سے بڑی مثال وفاقی وزیر برائے امور کشمیر و گلگت علی امین گنڈاپور ہیں جو ملک کی قانون ساز اسمبلی کا حصہ ہیں لیکن شاید خود قانون سے بالاتر ہیں۔

تفصیلات کے مطابق حال ہی میں وفاقی وزیر برائے امور کشمیر و گلگت علی امین گنڈاپور کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے، جس میں انہیں کم عمر بچے سے گاڑی چلواتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ جبکہ اس دوران علی امین گنڈاپور گاڑی میں آگے والی سیٹ پر بیٹھے ہوئے ہیں اور ساتھ ہی اس منظر کو عکس بند بھی وہ خود ہی کررہے ہیں۔

Image Source: Facebook

وفاقی وزیر برائے امور کشمیر و گلگت علی امین گنڈاپور کی وائرل ہونے والی ویڈیو میں جہاں وہ کم سن بچے کی ویڈیو بنا رہے ہیں وہیں اس ویڈیو کے مطابق گاڑی میں پیچھے کی سیٹوں دو لوگ اور بھی موجود ہیں۔ اگرچے بچے کی جانب سے گاڑی کسی مرکزی شاہراہ یا روڈ پر نہیں چلائی جارہی ہے، بظاہر یہ کوئی مرکزی شاہراہ نہیں لگ رہی ہے، ارد گرد بڑی تعداد میں کھیت وغیرہ بھی دیکھے جاسکتے ہیں، جس پر باڑ بھی لگی ہوئی ہے۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں تاحال یہ بات کنفرم نہیں ہوسکی ہے کہ آیا گاڑی چلانے والا بچہ وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور کے صاحبزادے ہیں یا کوئی اور، لیکن یہ بات تو یقیناً طے شدہ ہے کہ ایک کم عمر بچے کا گاڑی چلانا قانون کے مطابق غیرقانونی ہے۔ اگرچے ویڈیو گزشتہ روز سے وائرل ہے تاہم اب تک حکومت کی جانب سے کسی بھی قسم کا کوئی سخت ایکشن نہیں لیا گیا ہے۔

Image Source: Twitter

اگر حکومتی ادارے محض وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور کے خلاف کاروائی محض اس لئے نہیں کر رہے ہیں کہ وہ اعلی حکومتی شخصیت ہیں تو یہ ایک انتہائی نامناسب اقدام اور روئیہ ہے، جس پر قانون کے یکساں نفاذ پر سوالات اٹھ سکتے ہیں ۔ یہی نہیں ایک ایسا کم عمر بچہ جس کے پاس نہ تو لائسنس ہے، نہ ٹریننگ ہے، وہ اگر گاڑی چلاتے ہوئے روڈز پر آتا ہے تو یقیناً ناصرف وہ اپنی جان نقصان میں ڈال سکتا ہے بلکہ روڈز پھر دیگر لوگوں کی جان اور مال کے نقصان کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ لہذا اس واقعے کا درگزر کرنا، یقینا ایک منفی تاثر کو جنم دے گا۔

واضح رہے پاکستان میں قانون کے مطابق گاڑی چلانے کے لیے عمر کا کم از کم 18 سال کا ہونا ایک لازمی شرط ہے، جبکہ ڈرائیونگ لائسنس بھی 18 سال کے بعد ہی کسی بھی شہری کو جاری ہوتا ہے، لیکن یہ بات افسوس کے ساتھ کہنا پڑتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں عموماً والدین کم سن بچوں کے ہاتھوں میں گاڑیاں دیتے ہیں، شاید یہ ان کے لئے کسی فخر کی بات ہو، لیکن یقیناً یہ قانون کی ایک کھلم کھلا خلاف ورزی ہے اور دوسروں کی جان اپنے ہاتھوں میں لینے کے مترادف ہے۔

ڈرائیونگ لائسنس کی بات کی جائے تو یہ ایک سب سے بڑا المیہ ہے کہ لوگ گھروں میں کئی کئی گاڑیاں لاکر کھڑی کردیتے ہیں لیکن لائسنس بنوانا ان کی کبھی ترجیحات میں شامل نہیں ہوتا ہے۔

یاد رہے ایسا ہی ایک واقعہ چند ماہ قبل ملتان میں دیکھا گیا تھا، جہاں ایک چھے سالہ بچہ ملتان شہر کی مصروف ترین شاہراہ پر بوسان روڈ پر لینڈ کروزر چلاتے ہوئے دیکھا گیا تھا، جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر کافی وائرل رہی تھی، بعدازاں پولیس نے بچے کو تلاش کرکے والد کو حراست میں لے لیا، جبکہ دوران تفتیش یہ بات سامنے آئی تھی کہ بچے کو آئسکریم کھانے کا دل کررہا تھا، والد کو سوتا ہوا دیکھا کر وہ بغیر بتائے گاڑی چلاتے ہوئے نکل گیا تھا۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *