فاطمہ حسن جنہوں نے معذوری کو خوابوں کے آڑے آنے نہ دیا


0

ایک بڑا مشہور فقرہ ہے کہ انسان بے بس اس وقت تک ہے، جب تک وہ ہمت اور کوشش نہیں کرتا۔ ایسی ایک مثال ہمارے سامنے مشہور و معروف پاکستانی گرافکس ڈیزائنر فاطمہ حسن کی ہے، جو محض 10 برس کی عمر میں دسٹونیا نامی بیماری کا شکار ہوئیں، جس نے انہیں زندگی بھر کے لئے معذور کردیا تاہم یہ بیماری ان کے خوابوں کو نہ ٹوڑ سکیں، فاطمہ حسن نے اپنے ہنر میں ایسی مہارت دیکھائی کہ بین الاقوامی سطح پر انہیں سراہا گیا اور آج وہ کئی لوگوں کے لئے رول ماڈل بن گئیں ہیں۔

تفصیلات کے مطابق مشہور گرافکس ڈیزائنر فاطمہ حسن کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ اس بیماری سے قبل یعنی 9 برس کی عمر تک وہ ایک اچھی، ہنسی خوشی زندگی بسر کررہی تھیں کہ اچانک ایک روز انہیں ان کے والدین بے نوٹ کیا کہ ان کی گردن اور سیدھے گھٹنوں کے پٹھوں میں اینٹھن محسوس کی۔ جس کے بعد والدین کی جانب سے ڈاکٹروں کو دیکھایا گیا تاہم ایک سال تک ان کی بیماری کی تشخیص نہ ہوئی بعدازاں ڈاکٹروں نے انہیں مسکیولر ڈسٹونیا کی بیماری کی تصدیق کی جوکہ ناصرف پاکستان بلکہ پورے ایشیاء میں انتہائی کم لاحق ہونے والا مرض سمجھا جاتا ہے۔

Image Source: Instagram

تقرہبا دو سال کے بعد یہ بیماری آہستہ آہستہ پھیلتے ہوئے ان کے گلے تک جاپہنچی، جس نے گلے کو اس حدتک تک متاثر کیا کہ ان کی قدرتی آواز متاثر ہوتے ہوتے ختم ہونے کی نہج تک جاپہنچی۔ جبکہ جسمانی حالت بھی دن بدن خراب ہوتی رہی۔ اس دوران اچانک ان کی زندگی میں تبدیلیاں آنا شروع ہوگئی، لوگ انہیں کمزور سمجھنے لگے، ان پر ترس کھانے لگے۔ تاہم انہوں نے تمام معاملات کا بہادری سے مقابلہ کیا اور آج وہ زندگی میں ایک بڑے مقام پر ہیں۔

سوال یہاں یہ اٹھتا ہے کہ آخر فاطمہ حسن نے یہاں ایسا کیا قدم اٹھایا تو جواب ہے کہ اس مشکل حالات میں سب سے پہلے اس کے والدین، اہلخانہ، دوست اور اساتذہ نے اس کی ہمت کم ہونے کے بجائے بڑھائی اور بیماری سے لڑنے کا حوصلہ دیا۔ جبکہ فاطمہ حسن اس عمل کو مثبت انداز میں اپنایا اور سب سے پہلے اس بیماری کی حقیقت کو قبول کیا، ہار ماننے کے بجائے اس نے بہادری کے ساتھ فیصلہ کیا کہ وہ اب اس کے ساتھ زندگی گزارے گی لیکن ڈر کے بغیر۔

Image Source: Instagram

اس دوران فاطمہ حسن نے علاج کے لئے 2003 میں دبئی کا سفر کیا جہاں ان کی بوٹوکس ٹریٹمنٹ ہوئی، جس سے ان کی بیماری میں کچھ بہتری آئی اور ان کی ٹانگ بہتر ہوگئی تاہم کچھ عرصے میں ان کی بیماری حلق تک جا پہنچی تھی، اس سے ان کی بولنے کی صلاحیت متاثر ہوگئی۔ لہذا اس سلسلے میں وہ امریکہ گئیں جہاں انہوں اپنے ڈسٹونیا اور ڈیسفوبیا (مخر) علاج کروایا۔

البتہ فاطمہ حسن کا امریکہ میں علاج ممکن تو تھا تاہم علاج بہت مہنگا تھا، انہیں سال میں ایک سے دو بار امریکہ جانا پڑھتا تھا، اس دوران بیشتر وقت انہیں وہاں بغیر آواز کے گزارنا پڑا۔

Image Source: Instagram

اس حوالے سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر جاری کردہ پیغام میں فاطمہ حسن نے لکھا کہ جس دن سے اس بیماری نے انہیں گھیرا ہے، اس نے ان سے بہت مشکل کام اور صبر لیا ہے، ایسا نہیں ہوا کہ انہیں کوئی بھی چیز باآسانی میسر ہوگئی ہو۔ انہوں نے مزید لکھا کہ ہماری روزانہ کی زندگی میں مشکلات آتی ہیں تاہم وہ مشکلات ہمیں اس قابل بناتے ہیں کہ ہم مشکل صورتحال کا مقابلہ کرسکیں، لہذا ہمیں چاہے کہ ہر مشکل کا سامنا ثابت قدمی کے ساتھ کریں۔

سماجی رابطے ویب سائٹ پر جاری کردہ پیغام میں فاطمہ حسن کا نے مزید لکھا کہ ہماری زندگی میں ہمارا ہر قدم یا ہمارے ہر الفاظ بہت اہمیت رکھتے ہیں، آپ کی مشکلات کو کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے۔ لہذا میں اپنی زندگی میں چھوٹے چھوٹے کام کرنے کی کوشش کرتی ہوں، اور زندگی میں آنے والی تمام مشکلات کا سامنا مضبوط انداز میں مسکراہٹ کے ساتھ کرتی ہوں۔

ساتھ ہی فاطمہ حسب نے امید ظاہر کی کہ اس سال معذوری کے عالمی دن کے موقع پر ہمارے معاشرے میں ہمدردانہ نقطہ نظر اپنانے کے حوالے سے شعور اجاگر ہوگا۔

Image Source: Instagram

آج فاطمہ حسن کا شمار بی ایف اے ویژول کمیونیکیشن ڈیزائن کے تین بافخر تین اعزاز ڈیز میں ہوتا ہے جبکہ اس دوران فاطمہ حسن ایک ای- کامرس ادارے میں ویژول کمیونیکیشن ڈیزائنر کی حیثیت سے مستقل طور پر فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ انہوں نے اپنے خوابوں کو ہمیشہ سے بلند رکھا ہے، ان کی آج خواہش ہے کہ وہ امریکہ جاکر اپنا ماسٹرز کریں۔

واضح رہے ہمارے جیسے معاشرے میں معذوری کو ہمیشہ حقارت کی نظر سے دیکھا گیا، پہلے سے ہی رجحان سازی کرلی جاتی ہے کہ معاشرے میں معذور افراد ہر کام نہیں کرسکتے ہیں، اس بات پر امتیازی سلوک رکھا جاتا ہے۔ انہیں چند کاموں تک محدور کردیا جاتا ہے، البتہ اب دور بدل گیا ہے، جدیدیت نے ہر چیز کو آسان بنانے کی کوشش کی ہے، جس کی سب سے بڑی مثال کے آج ایک نابینا شخص بھی خود ٹائپنگ کرسکتا ہے اور اپنے امتحانات دے سکتا ہے۔

لہذا ہمیں اس کوشش کو آگے پڑھانا چاہیے کہ کمزور طبقے کے لئے مواقع پیدا کئے جائیں تاکہ انہیں معاشرے میں آگے بڑھنے کا احساس قائم رہے۔


Like it? Share with your friends!

0

What's Your Reaction?

hate hate
0
hate
confused confused
0
confused
fail fail
0
fail
fun fun
0
fun
geeky geeky
0
geeky
love love
0
love
lol lol
0
lol
omg omg
0
omg
win win
0
win

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Choose A Format
Personality quiz
Series of questions that intends to reveal something about the personality
Trivia quiz
Series of questions with right and wrong answers that intends to check knowledge
Poll
Voting to make decisions or determine opinions
Story
Formatted Text with Embeds and Visuals
List
The Classic Internet Listicles
Countdown
The Classic Internet Countdowns
Open List
Submit your own item and vote up for the best submission
Ranked List
Upvote or downvote to decide the best list item
Meme
Upload your own images to make custom memes
Video
Youtube, Vimeo or Vine Embeds
Audio
Soundcloud or Mixcloud Embeds
Image
Photo or GIF
Gif
GIF format