عید الفطر کا تہوار اور کورونا وائرس کے خطرات؟عیدی سے احتیاط کیوں؟


0

سحری کے پُرنور لمحات اور افطاری کی بابرکت ساعات اب ہمیں الوداع کہہ رہی ہیں اور عید کے پُرمسرت لمحات جلد آنے والے ہیں ۔ بلاشبہ وہ افراد نہایت خوش قسمت ہیں کہ جنہوں نے ماہِ رمضان پایا اور اپنے اوقات کو عبادات سے منور رکھا، پورے ماہ تقویٰ کی روش اختیار کیے رکھی اور بارگاہِ ربّ العزّت میں مغفرت کے لیے دامن پھیلائے رکھا۔عید الفطر ایسے ہی خوش بخت افراد کے لیے ہے اور اس دن اللہ تعالیٰ بندوں کو عباداتِ رمضان کا ثواب عطا فرماتے ہیں۔ اُمت مسلمہ میں عید الفطر کو خاص مقام اور اہمیت حاصل ہے اور اِسی مناسبت سے دنیا بھر کے مسلمان یکم شوال یعنی عید کے دن کو بھرپور انداز سے مناتے ہیں۔

اس خاص موقع پر لوگ میل ملاپ کے ذریعے اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں لیکن گزشتہ برس کی طرح اس سال بھی عید پہلے جیسے نہیں۔ پوری دُنیا میں کورونا وائرس کی وبا کے باعث سماجی اور معاشرتی رہن سہن کے طریقوں اور معمولات میں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ عید کا نام ویسے ہی باہم میل ملاپ، کھانے پینے اور خوشیاں منانے سے منسلک ہے، لیکن اس بیماری کو پھیلنے سے روکنا صرف اور صرف سماجی دوری یا جسمانی فاصلے ہی سے ممکن ہے۔ چونکہ اس وقت کورونا وائرس کی تیسری لہر نے شدت اختیار کرلی ہے اور پورا ملک لاک ڈاؤن کی لپیٹ میں ہے ،اس اعتبار سے ہمیں اس عید پر اپنی صحت کے لیے جہاں دیگر کئی احتیاطیں ملحوظِ خاطر رکھنی ہیں، وہیں کورونا وائرس کے پیشِ نظر سماجی و معاشرتی دوری کے حوالے سے بھی پابندی اور احتیاطی تدابیر کے ساتھ یہ تہوار منانا ہے۔

اس ہی سلسلے میں پڑھلو کی ٹیم نے ڈاکٹر صدف اکبر سے رابطہ کیا جو کراچی کے ایک نجی اسپتال میں مائیکرو بائیولوجسٹ اور انفیکشن کنٹرول مینیجر کے فرائض سر انجام دے رہی ہیں۔

انہوں نے اس حوالے سے خصوصی بات کرتے ہوئے بتایاکہ کورونا وائرس کے پیش نظر عیدی لینے اور دینے سے بھی احتیاط برتیں کیونکہ نوٹ کے ذریعے بھی یہ وائرس ایک سے دوسرے میں منتقل ہوسکتا ہے۔ یہ وائرس ایک ایسا وائرس ہے جو ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوتا ہے اور اس کے اثرات فوری طور پر نمایاں نہیں ہوتے۔ مثال کے طور پر اگر عیدی دینے والے شخص کو کورونا وائرس ہے اور وہ اس بات سے لاعلم ہے تو یہ ایک خطرناک بات ہے کیونکہ عین ممکن ہے کہ وہ شخص عیدی کے لین دین میں دوسروں کو کورونا وائرس بھی منتقل کردے ۔

مزید یہ کہ ہم اکثر دیکھتے ہیں لوگ بچوں کو عیدی دیتے ہیں تو چھوٹے بچے یہ نوٹ اپنے چہرے ہاتھوں پر لگاتے ہیں جس سے کورونا وائرس منتقل ہونے کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ کورونا کی تیسری لہر میں بچوں میں بھی یہ وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے ایسے میں بچوں کا یہ اقدام خطرے سے خالی نہیں اور ان کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔لہٰذا عیدی کی لین دین میں بھی سخت احتیاط کی ضرورت ہے۔کورونا وائرس کی موجودہ صورتحال کو مدؔنظر رکھتے ہوئے نے دوران گفتگو انہوں نے ازراہ مذاق عیدی کے بارے میں تجویز دیتے ہوئے کہا کہ اس بار عیدی میں پیسے لینے کے بجائے دعائیں لیں

جب کہ عید کے موقع پر گلے ملنے کی روایت پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر صدف اکبر نے کہا اس بار گلے ملنا بھی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ اس چیز میں بھی ہمیں خیال اور احتیاط کرنے کی ضرورت ہے کہ سوشل ڈسٹینسنگ برقرار رکھنی ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ عید ہماری آخری عید نہیں انشاءاللہ ہم اگلے سال پہلے کی طرح عید منائیں گے اور ممکن ہے کہ بہتر انداز میں منائیں اس لئے اس عید پر احتیاط کرلیں اور لوگوں سے میل جول سے اجتناب کریں۔ گھروں پر ملاقاتوں اور ضیافتوں سے گریز کریں البتہ اگر آپ کے گھر کوئی مہمان آجائے تو آپ احتیاطی تدابیر ضرور اپنائیں۔ ٹی وی کا ریمورٹ، موبائل فون اور تولیہ وغیرہ کا استعمال آپس میں نہ کریں۔ اے سی والے کمرے میں بیک وقت کئی افراد نہ بیٹھیں کیونکہ گھروں کے صوفے، برتن وغیرہ سے بھی وائرس منتقل ہوسکتا ہے۔ اپنے ہاتھوں کو بار بار پانی اور صابن سے دھوئیں یا پھر سینی ٹائزر کا استعمال کریں اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کریں۔

گفتگو کے دوران ڈاکٹر نے ماسک کے حوالے سے ایک اہم بات کی طرف نشاندہی کروائی کہ استعمال شدہ ماسک کو جگہ جگہ پھینکنے کے بجائے تھیلی میں ڈال کر ڈسٹ بین میں ڈالیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ماسک پھینکنے والے شخص کو کورونا وائرس ہے تو اس کے جراثیم ماسک پر بھی موجود ہو نگے جو کچرے اٹھانے والے کو منتقل ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے ماسک کے حوالے سے آگاہی دیتے ہوئے مزید بتایا کہ کسی بھی جسمانی سرگرمی جیسے ورزش یا کھیلنے کے دوران بہت دیر تک ماسک نہیں پہنیں۔ اگر ضرورت محسوس ہو تو اس کا استعمال کریں کیونکہ اکثر اوقات اس طرح سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے جس سے دم گھٹنے کا خطرہ ہوسکتا ہے۔ تاہم پر ہجوم جگہوں دکانوں اور پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتے وقت ماسک کا استعمال لازمی کریں۔

خیال رہے کہ کورونا وائرس اور اس نوعیت کی دیگر وباوؤں کا سامنا انسان اس سے پہلے بھی کر چکے ہیں، یہ اللہ کی جانب سے تنبیہات اور آخرت کی یاد دہانی کا ذریعہ ہیں۔ انسان چاہے ترقّی کی کتنی ہی منازل کیوں نہ طے کر لے، قدرتی آفات پر قابو نہیں پا سکتا۔ اللہ جو چاہے اس کا اختیار ہے اور اس کے اختیار کے سامنے انسان بالکل بے بس ہے۔ بلاشبہ عید الفطر امت مسلمہ کے لئے اہم تہوار ہے اور اس کے بعد عیدالاضحیٰ بھی آۓ گی چنانچہ اگر ہم اپنے عیدین کے یہ تہواربھر پور انداز سے منانا چاہتے ہیں تو ہمیں اس وقت اپنی اور دوسروں کی حفاظت کو یقینی بنانا ہوگا۔ ہم احتیاطی تدابیر پر عمل کریں گے تو صورتحال بہتر ہوسکتی ہے اور بصورت دیگر صورتحال پڑوسی ملک کی طرح خراب بھی ہوسکتی ہے۔

بیشک اس سال بھی عید الفطر پر عوام کو نئے کپڑے پہن کر سج سنور کر رشتہ داروں کے گھر جانے اور تفریحی مقامات پر جانا یاد تو ضرور آئے گا مگر کورونا سے بچاؤ بھی ضروری ہے لہٰذا میٹھی عید پر بلا ضرورت باہر نہ نکلیں ، خواتین اہل خانہ کے لئے گھر پر پکوان بنائیں اور گھر میں محفوظ رہ کر ان کا لطف اٹھائیں۔

پڑھلو کا بھی عوام کو یہی پیغام ہے کہ جان ہے تو جہان ہے اس لئے کورونا وائرس سے اپنی اور اپنے اہل خانہ کی حفاظت کریں اور احتیاطی تدابیر کے ذریعے اسے پھیلنے سے روکیں۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *