دنیا کی تیزترین پاکستانی کیلیگرافر عائشہ اعجاز


1

ضروری اعلان: لکھنے والے کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

ایک منٹ میں تیز ترین کیلی گرافی کرکےدنیا میں پاکستان کا نام بلند کرنے والی عائشہ اعجاز نے انتھک محنت سے یہ بات ثابت کی ہے کہ کوئی بھی معذوری کامیابی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی ،بس اپنی معذوری کو مجبوری نہیں بنائیں۔


باہمت عائشہ اعجاز کی زندگی کی کہانی عام لوگوں سے مختلف ہے کیونکہ انہوں نے یقین ،عزم اور حوصلے سے عالمی سطح پر اپنی شناخت خود بنائی ،کامیابی کے اس سفر میں عائشہ اعجاز کو کیا مشکالات آڑے آئیں اور کیسے وہ دنیا کی تیز ترین کیلیگرافر بنیں انہی کی زبانی جانتے ہیں۔


“ہماری سوسائٹی میں انسانوں کو درجوں میں تقسیم کیا جاتاہے ، نارمل ،معذور اور ذہنی معذور لیکن میں اس سوچ کی مخالف ہوں کیونکہ میرے نزدیک انسان اللہ کی بہترین تخلیق ہے ۔لیکن انسان کسی حال میں خوش نہیں، ہر کوئی دوسرے سے مختلف نظر آنا چاہتا ہے اور اگر قدرت کسی کو مختلف زندگی کے لئے چُن لے تو معاشرہ اُسے قبول نہیں کرتا۔

میں معاشرے کی اس سوچ کو تبدیل کرنا چاہتی ہوں ۔9 سال کی عمر میں مجھے جوائنٹ فیور ہوگیا اور ڈاکٹروں میری امی پر یہ بات واضح کردی ان کی بیٹی چند سال اور جی پائے گی اور اس کا کوئی علاج نہیں لیکن میری ماں نے ڈاکٹروں پر نہیں اللہ پر یقین رکھااور پھراللہ نے میری ماں کی دعائیں سُن لیں اور معجزانہ طور پر مجھے زندگی مل گئی۔زندگی ملنے کے بعد لوگوں نے امی کو یہ بولنا شروع کردیا کہ آپ کی بیٹی کسی کام کی نہیں لیکن ہم ان طعنوں سے گھبرائے نہیں بلکہ اپنی محنت جاری رکھی،اور اپنے ٹیلنٹ سے دنیا کی تیز ترین کیلیگرافر بن گئی۔

میں تیزی کے ساتھ کیلیگرافی کرسکتی ہوں اور میں نے یہ آرٹ کسی سے سیکھا نہیں بلکہ یہ قدرت کامجھ پر کرم ہے اور آج میں “دنیا کی تیزترین کیلیگرافر “کا ریکارڈ اپنے نام کرچکی ہوں جس سے میں نے ملک وقوم کا نام روشن کردیا ہے جو لوگ مجھے بیکار سمجھتے تھے آج میں ان کے لئے سرمایہ ہوں۔ مجھے ٹی وی شوز میں بلایا جاتا ہے ، میں ایک آن لائن میگزین کے لئے آرٹیکل لکھ چکی ہوں ۔ مجھے ایک ادارے پہچان پاکستان نے پراؤڈ پاکستان پیوپل (فخرے پاکستان) میں شامل کیا مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ نارمل لوگ پاکستانی آچیور ہیں وہی میں ،جسے لوگ یہ کہتے تھے کہ کچھ کر نہیں سکتی پراؤڈ پاکستانی آچیور ہوں ۔بہت سی لڑکیاں مجھے فالو کرتی ہیں جس کی مجھے بہت خوشی ہے ،مائیں میری امی سے پوچھتے ہیں کہ یہ سب آپ کی بیٹی نے کہاں سے سیکھا ہمیں بھی اپنی بیٹی کوسیکھانا ہے ۔


میری زندگی کی یہ جدوجہد ان تمام بچوں کے لئے ہے جنہیں یہ سوسائٹی قبول نہیں کرتی ،اس عالمی ریکارڈ کے بعد میرے گردوپیش کے لوگوں کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے لیکن ہمیں معاشرے کی سوچ تبدیل کرنا ہوگی ،میرا مقصد بھی یہی کہ معاشرے میں معذوری کی بنیاد پر انسانوں کی تقسیم کو ختم کیاجائے ۔“

تحریر:عائشہ اعجاز


Like it? Share with your friends!

1

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *