انٹرنیٹ پر کورونا وائرس سے منسلک غلط خبروں کا انبار


0

پاکستان کے میڈیا ہاوسس میں ایک جس جو مشترکہ طور پر پائی جاتی تھی وہ سنسنی کا عنصر تھا۔ البتہ دور اب سوشل میڈیا کا ہے اب ہر شخص خبریں دیتا اور فراہم کرتا تھا لیکن حالات شاید اب وہیں ہے سب سے پہلے دیتا ہے۔ جس کا اندازہ آپ کو حالیہ چند خبروں سے ہوجائے گا۔

لاہور کے معروف سرویسس اسپتال کے سرجیکل ایمرجنسی وارڈ میں ہفتے کے روز اچانک آگ بھڑک اٹھی. جب یہ واقعہ پیش آیا اس وقت وارڈ میں تقریباً 40 کے قریب مریض زیر علاج تھے۔ انتظامیہ کی جانب سے سب سے پہلے مریضوں کو وارڈ سے نکال کر اسپتال کے احاطہ میں منتقل کیا گیا تاکہ کوئی جانی نقصان نہ ہوسکے۔ البتہ انتظامیہ کی جانب سے ابھی آگ بھڑکنے کی وجہ معلوم کی جارہی ہے، ساتھ ہی کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ شارٹ سرکٹ کے باعث یہ واقعہ پیش آیا ۔

ملک میں کورونا وائرس کے منڈلاتے خطرے سے ابھی لوگوں پریشان تھے کہ یہ جب صورتحال لوگوں تک ۔سوشل میڈیا کے ذریعے پہنچی تو لوگوں نے اس کو کورونا وائرس سے منسلک کرنا شروع کردیا اور جس سے ایک افراتفری کا ماحول بن گیا ساتھ ہی خدشہ ظاہر کیا گیا کہ ملک ملک کا لاہور میں کورونا وائرس کے باعث اسپتالوں کی حالت بدتر ہوگئی ہے۔ اور اب مریضوں کو اسپتال میں رکھنے کی جگہ ختم ہوچکی ہے۔

بعدازاں انتظامیہ کی جانب سے آگ کو بجایا گیا اور مریضوں کو دوسرے وارڈ منتقل کردیا گیا ساتھ ہی وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے اس واقعے کے نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دیے دیا۔

جبکہ دوسری جانب لاہور شہر سے ہی منسلک ایک اور خبر جس نے سوشل میڈیا استعمال کرنے والے صارفین کو پریشانی میں ڈال دیا کہ پنجاب میں اسپتالوں میں اکسیجن کی فراہمی اس وقت معمول سے کافی کم ہے خدشہ ہے پنجاب کے اسپتالوں میں اکسیجن کی سہولیات میں قلت پڑھ جائے۔ لیکن بعد میں جاکر یہ خبر بھی غیر مستند ثابت ہوئی اور وزیر اعلیٰ پنجاب کی ڈیجیٹل ٹیم نے اس خبر کو بلکل مسترد کردیا اور عوام سے افواہوں پر کان نہ دھرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہ حکومت کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی ہر سہولیات کو بہتر اور یقینی بنانا رہی ہے۔ پنجاب حکومت اس کرائسز کے دوران تمام طبی معاملات کو باریک بینی کے ساتھ نظر رکھی ہوئی ہے۔

جبکہ آئندہ آنے والے دو ہفتے میں حکومت پنجاب کی جانب سے ملک میں کورونا وائرس کے علاج کی غرض س500-1000 بیڈ تمام اسپتالوں میں اکسیجن کی فراہمی کے ساتھ بڑھائے جانے کی بھی اطلاعات فراہم کیں۔

ہمارے جیسے تیسری دنیا کے ملکوں میں جہاں میڈیا آذاد دیر سے ہوا وہیں میڈیا کی کا ارتقائی دور بھی سست روی کا شکار رہا۔ جس کی اہم وجہ میڈیا اداروں پر ایک دوسرے پر سبقت لے جانا تھا۔ اس عرصے میں بریکنگ نیوز کلچر نے ملک میں عوام کو سنسنی کا عادی بنادیا ہے۔ نیوز کی اہمیت کا اندازہ چلنے کی بعد ہونے لگا۔ یہی وجہ ہے جب سوشل میڈیا آیا تو عوام نے بھی پھر اس ہی مزاج پر کام کیا کہ سب سے پہلے خبر کون لگائے گا۔ اکثر و بیشتر خبر کی بعد میں تصدیق ہوئی تو معاملات کچھ اور ثابت ہوئے البتہ خبر تیر کی طرح کمان سے ایک بار نکل جائے تو پھر اس کو روکنا کافی مشکل ہے۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *