پاکستانی خاتون ٹیچر ‘کیمبرج عالمی ایوارڈ’ کی ریجنل ونر قرار


0

استاد علم کا سرچشمہ ہوتا ہے۔ قوموں کی تعمیر و ترقی میں اساتذہ کا رول اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔تعمیر انسانیت اور علمی ارتقاء میں استاد کے کردار سے کبھی کسی نے انکار نہیں کیا ہے۔ اساتذہ کو نئی نسل کی تعمیر و ترقی، معاشرے کی فلاح و بہبود ،جذبہ انسانیت کی نشوونما اور افراد کی تربیت سازی کی وجہ سے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ “استاد سے ایک گھنٹہ گفتگو دس برس کے مطالعے سے مفید ہے”۔معاشرے میں اساتذہ کی اس اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے برطانیہ کی معروف ترین کیمبرج یونیورسٹی دنیا بھر سے ڈیڈیکیٹڈ (پُرعزم ترین) ٹیچر کا انتخاب کرتی ہے، اس سال ایک پاکستانی خاتون ٹیچر اس عالمی مقابلے میں ریجنل ونر قرار پاکر فائنل راؤنڈ میں پہنچ گئی ہیں۔

تفصیلات کے مطابق کیمبرج ایوارڈز میں دنیا بھر کے 113 ممالک سے 7000 نامزد افراد شامل تھے، جن میں سے 6 علاقائی فاتحین کو ججوں کے ایک پینل نے منتخب کیا جنہوں نے فائنل راؤنڈ میں جگہ بنائی۔ اس میں پرائیوٹ سیکٹر کے مشہور تعلیمی ادارے بیکن ہاؤس اسکول سسٹم گلشن کیمپس کراچی سے تعلق رکھنے والی عروسہ عمران نے علاقائی سطح پر کیمبرج ڈیڈیکیٹڈ ٹیچر ایوارڈ کے فائنل میں رسائی حاصل کی اور فاتح بنیں۔

Image Source: Facebook

یہ ٹیچر ایک ایسے بچے کو پڑھاتی ہیں جو پٹھوں کی بہت ہی کم لوگوں کو لاحق ہونے والی بیماری میں مبتلا ہے۔ اس بیماری میں مبتلا افراد بیٹھنے، چلنے یا چیزوں کو ہاتھ میں نہیں پکڑ سکتے۔تاہم عروسہ عمران کی انتہائی کوششوں اور محنت سے یہ بچہ خوشی خوشی اسکول آتا جاتا ہے اور تمام سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتا ہے جبکہ یہ اپنی ضروریات اور خواہشات کا اظہار کرنا سیکھ رہا ہے۔ ان کی یہ انتھک کوشش پوری دنیا کے اساتذہ کے لیے ایک تحریک ہے۔

Image Source: Facebook

واضح رہے کہ اس ایوارڈ کی حتمی نامزدگیاں ٹیچرز کے معیار تعلیم، طلبہ کی ہر وقت مدد کرنے کے جذبے، تعلیم میں ان کی دلچسپی بڑھانے اور انہیں مستقبل کے لیے تیار کرنے کی کوشش کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئیں۔ پاکستان کے اساتذہ ہمیشہ ان ایوارڈز میں سب سے آگے رہے ہیں۔ اس سے پہلے 2019 میں احمد قرطبہ اسکول سے تعلق رکھنے والی احمد سایا کو ان کی مثالی کوششوں کے لیے اس ایوارڈ کا عالمی فاتح منتخب کیا گیا تھا۔ کیمبرج کے مطابق احمد سایا کو اسکول مکمل کرنے کے بعد اپنے طلبا کی زندگی سنوارنے کے اعزاز میں ڈیڈیکیٹڈ ٹیچرز کے لیے نامزد کیا گیا۔

بیشک علم انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کر تی ہے اور انسان کو معاشرے کا ایک فعال اور اہم جزو بننے میں مدد فراہم کرتی ہے۔لہٰذا معاشرے میں جہاں ایک ماں کی آغوش کو بچے کی پہلی درس گاہ قرار دینے کے ساتھ ایک مثالی ماں کو ایک ہزار اساتذہ پر فوقیت دی گئی ہے وہیں ایک استاد کو اپنی ذات میں ساری کائنات کو بچے کے لئے ایک درس گاہ بنانے کی طاقت رکھنے کی وجہ سے روحانی والد کا درجہ دیا گیا ہے۔ چونکہ ایک استاد طلبا کو نہ صرف مختلف علوم و فنون کا علم دیتا ہے بلکہ اپنے ذاتی کردار کے ذریعہ ان کی تربیت کا کام بھی انجام دیتا ہے۔

معاشرے کے افراد خواہ وہ عدلیہ، فوج، سیاست، بیوروکریسی ،صحت، ثقافت، تعلیم ،صحافت یا کسی بھی اور شعبے و پیشے سے وابستہ ہوں اپنے استاد کی تربیت کے عکاس ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ استاد کو ایک معاشرے کی تعمیر میں کلیدی کردار کی انجام دہی کے باعث معمار ِقوم کا خطاب عطا کیا گیا ہے۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *