بورے والا میں مدرسے کے استاد نے 13 سالہ معصوم طالبہ کو زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا


0

پچھلے کچھ عرصے سے ملک میں زیادتی کے واقعات میں ایک واضح اضافہ دیکھا گیا ہے۔ افسوس کے ساتھ ہمارے مذہبی ادارے اس سے محفوظ نہیں رہے ہیں۔ ہم اکثر وبیشتر ایسے واقعات کو سنتے آئے ہیں۔

ایسا ہی ایک خوفناک واقعہ صوبہ پنجاب کے بورے والا شہر میں پیش آیا۔ ،جہاں بیمار ہونے کے بعد جب 13 سالہ معصوم بچی کے والدین اسے ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے تو، ڈاکٹروں نے 13 سالہ معصوم بچی کو حاملہ قرار دے دیا ۔

Image Source: File

معصوم بچی نے تصدیق کی کہ مدرسے کا مولوی پچھلے کئی مہینوں سے اس کے ساتھ زیادتی کر رہا تھا۔ جس پر متاثرہ بچی کے والدین نے تھانہ شاہ پولیس اسٹیشن میں مدرسہ کے استاد کے خلاف مقدمہ درج کروا دیا ہے۔ تاہم ملزم اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ شہر سے فرار ہوگیا ہے۔ پولیس کے مطابق اسے ابھی تک حراست میں نہیں لیا گیا ہے اور نہ ہی اس کا سراغ لگایا گیا ہے۔

یہاں افسوس کی بات یہ ہے کہ ملک میں عصمت دری کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ جو بات اس سے بھی زیادہ چونکا دینے والی ہے وہ یہ ہے کہ یہ اساتذہ ہی ہیں جو قرآن پاک جیسی مقدس کتاب پڑھاتے ہیں اور وہ ہی ایسی حرکتوں کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ مزید یہ کہ ، عام طور پر معصوم بچوں کو ہی ایسے گھناؤنے فعل کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

Image Source: File

جہاں ملک میں جنسی زیادتی کے کیسسز میں اضافہ دیکھا جارہا ہے، وہیں اس جرم کی روک تھام کے لئے حکومت کی جانب سے سخت سزائیں مقرر کردی گئی ہیں۔ جس میں سزائے موت ، عمر قید جیسی سزا بھی شامل ہے۔ تاہم ، ستم ظریفی کا یہ عالم ہے کہ سخت قانون سازی کے باوجود جنسی مجرم خواتین اور بچوں کے ساتھ ایسے گھناؤنے فعل کا کر رہے ہیں ، اور کیسز کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔

مزید یہ کہ ، ایسا لگتا ہے جیسے ہر نئے دن ، انسانیت مرتی جا رہی ہے۔ یا شاید یہ اب موجود ہی نہیں ہے۔ اس طرح کے واقعات میں کمی لانے کے لیے حکومت کی کوششوں کے باوجود ، ایسے واقعات برقرار ہیں۔ اور مایوسی کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں بچوں کے ساتھ زیادتی غالب ہے اور حکومت ایسے جرائم کو روکنے میں ناکام ہے۔

Image Source: File

پاکستان میں عصمت دری کے قوانین اور جنسی حملوں کو روکنے کے لیے سزا کی شدت کے بارے میں بحث جاری ہے۔ زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر قابو پانے کے تناظر میں ، وزیر اعظم عمران خان نے نومبر 2020 میں ، جنسی مجرموں کے کیمیائی کاسٹریشن کے قانون کو اصولی طور پر منظور کیا تھا۔

واضح رہے گزشتہ دنوں بدین میں قوت گویائی سے محروم اور دونوں ہاتھوں سے معذور 8 سالہ بچی کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ پولیس کے مطابق بچی کے ساتھ زیادتی کا واقعہ ضلع بدین کے کھورواہ شہر کے نواحی گاؤں عمر پسرور میں پیش آیا جہاں بچی کو نامعلوم شخص نے زیادتی کا نشانہ بنایا اور فرار ہوگیا، بچی بے ہوشی کی حالت میں گھر کے قریب واٹر کورس سے ملی۔

یاد رہے ان واقعات پر ایک غیر سرکاری تنظیم (این جی او) کے جاری کردہ اعدادو شمار میں بتایا گیا کہ پاکستان میں روزانہ 8 بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ اس میں 51 فیصد متاثرین بچیاں اور 49 فیصد لڑکے ہوتے ہیں۔ جب کہ سال 2020 کے دوران ملک کے چاروں صوبوں، وفاقی دارالحکومت، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بچوں کے خلاف 2 ہزار 960 بڑے جرائم رپورٹ ہوئے۔ افسوس کے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے اکثر کیسیز تو رشوت اور تھانہ کچہری کے ڈر سے رپورٹ ہی نہیں ہوتے ہیں۔

Story Courtesy: ARY News


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *