بھارت میں دریا کا پانی خشک ہونے پر قدیم مسجد نمودار ہوگئی


-1
-1 points

دنیا کے مختلف ممالک میں آئے روز عجیب وغریب واقعات منظر عام پر آتے رہتے ہیں ان میں کچھ ایسے ہوتے ہیں جن پر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ایسا ہی ایک حیرت انگیز واقعہ بھارتی ریاست بہار میں رونما ہوا ہے جس نے سوشل میڈیا پر ہلچل مچادی ہے۔ اس ریاست میں دریا خشک ہونے پر 600 سال پرانی مسجد صحیح سلامت برآمد ہوئی ہے جسے دیکھنے کے لئے لوگ کئی کئی کلومیٹر دور سے پہنچنے لگے ہیں۔ اتنے سالوں بعد بھی مسجد کے بالکل درست حالت میں رہنے کو اگر قدرت کا کرشمہ نہ کہیں تو پھر اور کیا کہیں۔مقامی مسلمان تو اس مسجد کے نمودار ہونے پر خوشگوار حیرت اور مسرت کا اظہار کر رہے ہیں اور یہاں آ کر تکبیر اور اذان بلند کر رہے ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ضلع نواڈا میں خشک سالی کے باعث دریا کا پانی خشک ہوگیا اور پھولواریہ ڈیم کا جنوبی حصہ خالی ہونے سے وہاں  ایک مسجد ابھر آئی جو 30 سال قبل ڈیم بننے کی وجہ سے زیر آب آگئی تھی۔ یہ مسجد اب بھی اپنی اصل حالت میں ہے جسے دیکھنے کے لیے لوگوں کا جوق درجوق پہنچ رہے ہیں۔

Image Source: Twitter

اس سلسلے میں علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ اس مسجد کا نام نوری مسجد ہے اور یہ اپنے فن تعمیر کے اعتبار سے 600 سال قدیم لگتی ہے جب کہ کچھ کا کہنا ہے کہ یہ مسجد 20 ویں صدی میں بنی تھی تاہم 1985 میں پھلواریہ ڈیم کی تعمیر کے بعد مسجد زیر آب آگئی تھی اور حیران کن طور پر 30 سال زیر آب رہنے کے باوجود تاحال جوں کی توں تھی اور عمارت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ یہ مسجد تقریباً 30 فٹ بلند ہے اور اس پر ایک بالائی دیدہ زیب گنبد بھی ہے۔

علاقہ مکینوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پہلے جب کبھی پانی کی سطح کم ہوتی تھی تو مسجد کے گنبد کا ایک حصہ نظر آنے لگتا تھا جو ڈیم میں پانی بھرنے سے دوبارہ غائب ہوجاتا تھا۔ علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ 1979 میں پھلواریہ ڈیم کی تعمیر پر کام شروع ہونے سے پہلے یہاں بڑی آبادی رہتی تھی جنہیں ڈیم کی تعمیر کے لیے بے دخل کیا گیا تھا اور یہ پورا علاقہ حکومت نے حاصل کرلیا تھا۔ حکومت نے اس جگہ کے بدلے وہاں کے رہائشیوں کو ہردیہ گاؤں میں منتقل کر دیا تھا۔

خیال رہے کہ بھارتی ریاست کیرالہ میں ضلع ملا پورم میں ایک ایسا گاؤں ہے جہاں لگ بھگ دوہزار کی آبادی ہے مگر ساڑھے تین سو سے زیادہ جڑواں بچے ہیں۔ اس گاؤں کی 85 فیصد آبادی مسلمان ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ ہندو خاندانوں میں جڑواں بچے پیدا نہیں ہوتے ہیں۔ اس گاؤں کی عجیب وغریب بات یہ ہے کہ جب بھی یہاں کسی کنبے میں بچے پیدا ہوتے ہیں تو زیادہ تر جڑواں بچے پیدا ہوتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق گذشتہ 50 سالوں میں یہاں ساڑھے تین سو سے زیادہ جڑواں بچے پیدا ہوئے۔ اس گاؤں کی داخلی حدود پر ایک بورڈ نصب ہے جس پر لکھا ہے کہ “اللہ کے گائوں کوڈنھی میں خوش آمدید” جبکہ اس گاؤں کو جڑواں بچوں والے گاؤں کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس گتھی کو سلجھانے کے لئے یہاں پر جرمنی اور برطانیہ کے محققین کی ٹیم بھی دورہ کر چکی ہے اور اس ٹیم نے مطالعے کے لئے لوگوں کا ڈی این اے بھی لیا تھا لیکن آج تک کسی کو بھی جڑواں بچوں کی پیدائش کی اصل وجہ سمجھ نہیں آ سکی ہے۔


Like it? Share with your friends!

-1
-1 points

What's Your Reaction?

hate hate
0
hate
confused confused
0
confused
fail fail
0
fail
fun fun
0
fun
geeky geeky
0
geeky
love love
0
love
lol lol
0
lol
omg omg
2
omg
win win
0
win

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Choose A Format
Personality quiz
Series of questions that intends to reveal something about the personality
Trivia quiz
Series of questions with right and wrong answers that intends to check knowledge
Poll
Voting to make decisions or determine opinions
Story
Formatted Text with Embeds and Visuals
List
The Classic Internet Listicles
Countdown
The Classic Internet Countdowns
Open List
Submit your own item and vote up for the best submission
Ranked List
Upvote or downvote to decide the best list item
Meme
Upload your own images to make custom memes
Video
Youtube, Vimeo or Vine Embeds
Audio
Soundcloud or Mixcloud Embeds
Image
Photo or GIF
Gif
GIF format