اے ایس آئی کی بہادر بیٹی نے کس طرح مجرمان کو پکڑ وایا؟ جانئے


0

کشمور میں ہونے والے انسانیت سوز واقعے میں گرفتار ملزم محمد رفیق ملک نے جہاں پولیس کے سامنے اپنے گھناؤنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے بتایا کہ اس نے خاتون اور چار سالہ بچی کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ دو ہفتے تک جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ وہیں پولیس کی جانب سے واقعے میں ملوث مجرمان کے خلاف کاروائی بھی نہایت بہادری کے ساتھ کی گئی۔ اس دوران پولیس کے اسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) محمد آصف کے جرات مندانہ اقدام کو خوب سہرایا جارہا ہے، جس نے مجرمان کو پکڑنے کے لئے اپنی سگی بیٹی کی جان خطرے میں ڈالنے کا خطرہ مول لیا۔

تفصیلات کے مطابق بدھ کے روز انٹرنیٹ پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی، جوکہ وہاں پر موجود کسی شخص کی جانب سے ریکارڈ کی گئی تھی، جس میں دیکھا جاتا ہے، خاتون نے اپنی بیٹی سے پوچھا کہ آخر اس کے ساتھ ان درندوں نے قید میں کیا کیا، بچی جب والدہ کو اپنی ٹوٹی پھوٹی آواز میں احوال بتاتی ہے تو گویا ماں کا کلیجہ منہ کو آجاتا ہے، اور بےبس ماں زارو قطار رونا شروع کردیتی ہے، اس ویڈیو نے انٹرنیٹ پر سننے والوں کے رونگے کھڑے کردئیے۔

بعدازاں چار سالہ معصوم لڑکی کو میڈیکل جانچ کے لئے اسپتال منتقل کیا جاتا ہے، جس میں اس بات کی تصدیق ہوجاتی ہے کہ معصوم بچی کو ایک زائد لوگوں کی جانب سے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

kashmore
Image Source: Twitter

پولیس میں درج ایف آئی آر کے مطابق کراچی کے اسپتال میں خاتون کو کچھ افراد کی جانب سے نوکری کا جھانسہ دیا جاتا ہے کہ وہ انہیں کشمور 40 ہزار روپے تنخواہ پر نوکری دے سکتے ہیں، جس پر خاتون حامی بھرتی ہیں اور 25 اکتوبر کو اپنی چار سالہ بیٹی کے ہمراہ ان لوگوں کے ساتھ کشمور کے لئے روانہ ہوجاتی ہیں۔ تاہم خاتون اور انکی بیٹی کو مالک ہاؤس نامی گھر لے جایا جاتا اور پھر انہیں وہاں قید کردیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ان درندہ صفت ملزمان کی جانب سے خاتون اور بچی کو تقریباً 2 ہفتے تک اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

بعدازاں مجرمان کی جانب سے خاتون کو تو اپنی تحویل سے رہائی دے دی گئی لیکن چار سالہ معصوم بیٹی کو وہیں روک لیا گیا اور خاتون کے آگے شرط رکھ دی گئی کہ اس خاتون کو یہاں لیکر آیا جائے جو اس دن اسپتال میں تمھارے ساتھ تھی اور پھر اپنی بیٹی کو لے جاؤ۔ یہی نہیں ساتھ ہی ساتھ خاتون کو دھمکی بھی دی گئی کہ اگر خاتون، اسپتال میں والی خاتون کو یہاں لیکر نہیں آئیں تو وہ اس کی چار سالہ بچی کو قتل کردیں گے۔

جس کے بعد خاتون نے نہایت ہی پریشانی کے عالم میں کشمور پولیس سے رابطہ کرکے اسٹنٹ سب انسپکٹر محمد بخش کو پورے کا احوال بتایا کہ مجرمان اس کی بیٹی کو اس وقت تک نہیں چھوڑیں گے جب تک وہ کسی خاتون کو ان کے حوالے نہیں کردیتی لہذا اسٹنٹ سب انسپکٹر محمد بخش نے اس کیس کے اندر اپنی سگی بیٹی کو بطور معاونت شامل کیا۔

جس پر متاثرہ خاتون سے کہا گیا کہ وہ ملزمان کو اطلاع دے کہ اس نے دوسری خاتون کا بندوبست کرلیا ہے۔ اس دوران متاثرہ خاتون پولیس اہلکار کی بیٹی سے فون پر بات بھی کرواتی ہے، جس پر ملزمان سے کہتی ہیں کہ وہ بھی بےروزگار ہے۔ لہذا اس طرح مجرمان کو اعتماد میں لیا جاتا ہے، اور ملزمان کو ملاقات کے لئے ایک ہوٹل بلایا جاتا ہے۔ جہاں پولیس مار کر مجرم محمد رفیق ملک کو گرفتار کرلیتی، اور خاتون کی بیٹی کو ملزمان کی قید سے بازیاب کروالیا جاتا ہے۔

جیسے ہی عوام کو سوشل میڈیا کے ذریعے اسٹنٹ سب انسپکٹر محمد بخش کی بہادری اور ہمت سے بھرپور اس واقعے کا پتہ لگا، تو لوگوں اسے اصل زندگی کا ہیرو قرار دے دیا، سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر عوام کی جانب سے اے ایس آئی محمد بخش پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے بڑھ کر خدمت انجام دینے پر انہیں خراج تحسین پیش کیا جارہا ہے۔

ساتھ اس دوران ایک اور ویڈیو اس وقت سوشل میڈیا پر وائرل ہے، جس میں دیکھا گیا ہے کہ ایک نجی چینل کی جانب سے اے ایس آئی محمد بخش کی اہلیہ اور اس واقعے میں مجرمان کو پکڑ وانے میں اہم کردار ادا کرنے والی ان کی بیٹی کا انٹرویو لیا گیا ہے۔

Image Source: Twitter

اپنے دیئے گئے انٹرویو میں محمد بخش کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ فیصلہ محض انسانیت کے لئے کیا تھا، پولیس کی موجودگی میں ہم نے اس واقعے میں اپنی بیٹی کو بھیجا، اس دوران خاتون نے ہماری بیٹی کا ہاتھ پکڑا اور اس سے پوچھا کیا وہ یہ کرے گی، تو بیٹی نے کہا ہاں وہ کریگی۔

اسٹنٹ سب انسپکٹر محمد بخش کی اہلیہ کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے یہ سب اس معصوم بچی کے خاطر کیا، وہ خاتون ہمارے گھر رہیں، انہوں نے اس دوران کچھ کھایا پیا نہیں، ہمیں ان کی یہ حالت دیکھ کر بہت رونا آیا کرتا تھا، تین دن تک ہمارے گھر کا ماحول بہت عجیب سا رہا، البتہ ہم نے اس معصوم کو کبھی دیکھا نہیں تھا لیکن ہم بہت زیادہ پریشان تھے اس بچی کے لئے ۔ اللہ تعالیٰ بس ہمیں اس کا اجر دے گا، ہم نے اپنی بیٹی کو محض انسانیت کے لئے بھیجا اور کوئی پیچھے مقصد نہیں تھا۔

اس دوران بہادر بیٹی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ مجرمان نے خاتون سے فون پر پوچھا کہ کیا وہ لڑکی کو لیکر آگئے ہیں؟ جس پر خاتون نے کہا ہاں میں لڑکی کو لے آئی ہوں اور ہم ابھی سٹی پارک میں موجود ہیں۔ جس پر انہوں نے ہمیں دیکھا اور خاتون سے پوچھا کون سی لڑکی، جس پر خاتون نے میری طرف اشارہ کیا، جس پر مجرمان نے کہا “یہ اچھی ہے “.

بیٹی کا مزید کہنا تھا کہ اس دوران خاتون نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ تم یہ سب کرنا چاہتی ہو، جس پر میں نے اعتماد سے کہا ہاں۔ جس کے فوری بعد پولیس آگئی اور انہوں نے مجرم کو ہاں سے پکڑ لیا۔

اس واقعے کے بعد حکومت سندھ کی جانب سے اسٹنٹ سب انسپکٹر محمد بخش کی بہادری کو دیکھتے ہوئے سینٹر ریکمنڈنگ کو خط لکھا ہے کہ محمد بخش کو پولیس کے سب سے بڑا ایوارڈ قائد اعظم سے نوازا جائے۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *