
لاہور کے علاقے گلبرگ میں واقع حفیظ سینٹر میں شارٹ سرکٹ سے آگ بھڑک اٹھی ، جس نے عمارت کی دوسری اور تیسری منزل کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس آتشزدگی کے نتیجے میں درجنوں دوکانوں میں موجود کروڑوں مالیت کا سامان جل کر خاکستر ہوگیا۔ جبکہ آتشزدگی کے اس افسوس ناک واقعے کے دوران ایک خاتون تفریحی انداز میں ان مناظر کی تصویر کشی کرتی رہی۔
تفصیلات کے مطابق حفیظ سینٹر میں آگ لگنے کی اطلاع ملتے ہی بڑی تعداد میں دکاندار موقع پر پہنچ گئے۔ بے قابو ہوتی آگ کی شدت کو دیکھتے ہوئے لوگوں نے اذانیں دینا شروع کردیں لیکن بے قابو آگ کے شعالوں نے کروڑوں کی مالیت کا سامان اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
آگ اور دھوئیں کے کالے بادل عمارت کے چاروں اطراف میں چھا گئے جبکہ عمارت میں پھنسے ہوئے لوگ مدد کے لئے چیختے رہے جنہیں ریسکیو ٹیموں نے بعد میں باحفاظت نکال لیا۔ حفیظ سینٹر میں لگنے والی اس آگ پر ریسکیو اور فائر بریگیڈ کے عملے کئی گھنٹوں کے بعد قابو پانے میں کامیاب ہوئے۔
اس خوفناک آگ نے تاجروں کی جمع پونجی جلا ڈالی اور دکاندار اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے اثاثے جلتے دیکھتے رہے ، اس واقعے میں ہر تاجر پریشان اور ہر آنکھیں آشکبار تھی ۔ تاہم اس ناگوار صورتحال کے دوران ایک خاتون کو آتشزدگی سے بےنیاز ، آگ لگنے سے بجھنے تک کے تمام مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اور تصاویر کھینچتے ہوئے دیکھا گیا۔ افسوس کے جب تاجر اپنے زندگی بھر کی جمع پونجی کے نقصان پر آنسو بہا رہے تھے تو خاتون مختلف مناظر میں اپنی تصاویر لینے میں مصروف تھیں۔






ایک طرف بھیانک آگ جس نے کئی لوگوں کا روزگار چھین لیا وہیں جائے وقوع پر موجود خاتون کا تفریحی انداز سے تصویریں لینا اور پھر اس کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کردینا افسوسناک امر ہے۔ خاتون کی اس پوسٹ کے وائرل ہونے پر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے نہایت سخت ردعمل دیکھنے میں آیا۔ اس حوالے سے لوگوں کا کہنا تھا کہ اگر یہ خاتون ہمدردی نہیں کرسکتیں تو لوگوں کے جذبات مجروح نہ کریں جب کہ بعض صارفین نے تو خاتون کی اس حرکت کو شرمناک قرار دے دیا۔
سوشل میڈیا پر صارفین کی طرف سے اتنے سخت ردعمل کے بعد خاتون نے لوگوں سے اپنے غیر سنجیدہ روئیےپر معذرت کرلی۔

اس حوالے سے یہ واضح رہے کہ حفیظ سینٹر میں آتشزدگی کے اس واقعے میں کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ہے۔ تاہم یہ کہا جارہا ہے کہ لاکھوں مالیت کی بہت سی الیکٹرانک اشیاء آگ کے شعلوں سے تباہ ہوگئیں ہیں۔ یاد رہے کہ کچھ سال پہلے ایسا ہی ایک واقعہ کراچی میں صدر کے علاقے میں بھی پیش آچکا ہے۔
0 Comments