
دنیا میں ہر انسان کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی مشکل اٹھا رہا ہے لیکن مضبوط انسان وہی ہے جو ہر مشکل وقت میں ثابت قدمی کا اظہار کرے۔ ایسے ہی مشکل وقت سے شہر کراچی میں بسنے والی ماں بیٹی گزار رہی ہیں، یہ دونوں ایک سال سے عبداللہ شاہ غازی مزار کے قریب سلور رنگ کی گاڑی میں رہتی ہیں۔ ان کا سارا سامان یہاں تک کہ بستر، قرآن شریف، جائے نماز سب کچھ اسی میں موجود ہے۔ گاڑی میں رہنے والی ان خواتین کے نام شمائلہ شیخ اور ان کی والدہ گل ناز ہیں۔
خبر رساں ادارے انڈپینڈنٹ اردو کی رپورٹ کے مطابق شمائلہ اور ان کی والدہ گلستان جوہر میں اپارٹمنٹس میں رہتی تھیں۔ لیکن جب کراچی میں پہلی مرتبہ کورونا لاک ڈاؤن لگا تو ان کو گھر سے نکال دیا گیا۔

شمائلہ کہتی ہیں کہ واقعہ کچھ یوں ہوا کہ ہم دونوں ماں بیٹی سو رہی تھیں کہ اچانک گھر میں مالک مکان سمیت 15 مرد اور خواتین گھس آئیں۔ مکان کا دروازہ توڑ کر زبردستی اندر داخل ہوگئے۔ مجھ پر مٹی کا تیل ڈالا اور جلانے کی دھمکی دی۔ میں گھر سے نکلنا نہیں چاہتی تھی، مگر انہوں نے مجھے اور میری والدہ کو گھر سے مار مار کے باہر نکال دیا ،کوئی ہمیں بچانے نہیں آیا ،کسی رشتے دار نے ہمارا ساتھ نہیں دیا۔ ہم نے پولیس کو اطلاع کی لیکن کوئی فرق نہ پڑا اور بہت کوششوں کے بعد میری امی کے نام پر ایف آئی آر کٹی لیکن ابھی تک اس پر کوئی سنوائی نہیں ہوئی۔ میں اپنا کیس لڑتے لڑتے سب کچھ ہار چکی ہوں لیکن میں نے اور میری امی نے ابھی تک امید نہیں چھوڑی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ امی کے ساتھ گاڑی میں رہنا بہت مشکل ہے یہ چھوٹی گاڑی ہے اور اس میں پیر پھیلانے تک کی جگہ تک نہیں ہوتی۔ ہم نے گاڑی میں کمبل، کپڑے، جائے نماز، قرآن شریف رکھا ہوا ہے ،میں حافظِ قرآن ہوں اور رات بھر ہر آہٹ پر مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں کسی کو معلوم نہ ہو جائے کہ گاڑی میں عورتیں رہتی ہیں۔ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ یہاں عورتیں ہیں تو وہ گاڑی پر پتھر بھی مارتے ہیں، کوئی آ کر کہتا ہے کہ گاڑی سے نکلو باہر ہم نوکری دیں گے۔

شمائلہ نے مزید بتایا کہ سڑک پر یوں زندگی گزرانا ایک مجبوری ہے۔ میں پیشے کے اعتبار سے ایک صحافی ہوں ، مجھے کوئی نوکری نہیں دیتا، ہمارے گھر میں سارے دستاویزات رہ گئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ عبداللہ شاہ غازی مزار کے لنگر میں تقسیم ہونے والا کھانا کھا لیتی ہیں اور دن میں ایک بار مزار میں جاکر باتھ روم استعمال کرتی ہیں۔جبکہ ان کی امی گاڑی سے ٹکر لگنے کے بعد معذور ہوگئی ہیں۔ یہ لوگ شمائلہ جس فلیٹ میں رہتی تھیں، وہاں کے یونین کاؤنسل کا کہنا ہے کہ انہوں نے 2 ماہ سے کرایہ نہیں دیا تھا، یہی وجہ تھی کہ ان کو وہاں سے نکالا گیا۔
ان ماں بیٹی سے پہلے شہر قائد میں ایک ایسا نوجوان بھی سامنے آیا ہے جس کے پاس کوئی گھر نہیں اور جب رہنے کے لئے اسے کوئی ٹھکانہ نہیں ملا تو اس نے شہر کے مختلف درختوں کو اپنا مسکن بنالیا اور وہ گزشتہ آٹھ سالوں سے درخت پر گھر بناکر اپنا گزر بسر کررہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ درخت پر قائم اس کے اس چھوٹے سے گھر میں ضرورت زندگی کا سامان بھی موجود ہے جس میں چولہا، واش بیسن اور لائٹ شامل ہے۔
Story Courtesy: Independent Urdu
0 Comments