نور مقدم قتل کیس: پولیس کی وضاحت کو ریکارڈ کا حصہ بنالیا جائے، وکیل عصمت آدم جی


0

نور مقدم قتل کیس میں بدھ کو ٹرائل کورٹ کی کارروائی کے دوران، ٹرائل کورٹ کے جج نے نور مقدم کیس کے ایک ملزم کے وکیل پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے عدالت کو وضاحت کی کہ اسلام آباد پولیس نے تفتیشی افسر کے جرح کی وضاحت کرنے والی پریس ریلیز جاری کی تھی۔

ایڈیشنل سیشن جج عطاء ربانی نے کیس کی سماعت کی تو قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی والدہ عصمت آدم کے وکیل اسد جمال نے سوال اٹھایا کہ کیا پولیس کی جانب سے جاری کردہ وضاحت پراسیکیوشن کرے گی؟

Image Source: File

جس پر سرکاری وکیل حسن عباس نے جواب میں کہا کہ جو کچھ میڈیا میں ہو رہا ہے اسے میڈیا پر چھوڑ دینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد پولیس کے انسپکٹر جنرل نے وضاحت جاری نہیں کی۔ یہ صرف پولیس کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ایک ٹویٹ تھا۔

ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے کہا، ’’مجھے نہیں معلوم کہ پولیس نے کون سی وضاحت دی ہے۔‘‘ “میری اپنی ایک فطرت ہے۔ میں چیزوں کا اس طرح تجزیہ نہیں کرتا۔ معاملے کی جانچ کی جائے گی۔‘‘ بعد ازاں عدالت نے سرکاری وکیل سے کہا کہ وہ پولیس آئی جی کو مطلع کریں کہ وہ زیر التوا کیس میں ایسی کوئی وضاحت نہیں دے سکتے ہیں۔

چنانچہ ملزم کے وکیل اسد جمال نے کہا کہ یہ عدلیہ کے معاملات میں مداخلت کی کوشش ہے۔ اسلام آباد پولیس نے قبل ازیں ایک پریس ریلیز میں واضح کیا تھا کہ میڈیا کے ایک حصے میں آنے والی خبروں سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پولیس قتل کے مرکزی ملزم کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کر رہی ہے۔

Image Source: File

واضح رہے پیر کو گزشتہ سماعت پر تفتیشی افسر نے ٹرائل کورٹ کو بتایا کہ فرانزک رپورٹ میں جائے وقوعہ سے برآمد ہونے والے ہتھیار پر ظاہر کے فنگر پرنٹس نہیں ملے اور نہ ہی گرفتاری کے وقت اس کی پتلون میں خون کے دھبے تھے۔

سماعت کے دوران مرکزی ملزم ظاہر سمیت دیگر ملزمان کو اڈیالہ جیل سے پیش کیا گیا۔ پبلک پراسیکیوٹر حسن عباس اور مدعی شوکت مقدم بھی عدالت میں پیش ہوئے تھے۔ عدالت نے کمرہ عدالت میں سی سی ٹی وی فوٹیج چلانے کے لیے ان کیمرہ کارروائی کو بھی قرار دیا۔

اس دوران وکیل اکرم قریشی اور ذاکر جعفر کے نوکر کے وکیل نے تفتیشی افسر پر جرح مکمل کی۔ عصمت آدم کے وکیل اسد جمال 2 فروری کو تفتیشی افسر پر جرح کریں گے۔

مزید پڑھیں: کسی کو نہیں چھوڑوں گا، اگر انصاف میں رکاوٹ ڈالی گئی، والد نور مقدم

جرح کے دوران ملزم کے وکیل نے سرکاری وکیل کو بولنے سے روک دیا اور کہا کہ تفتیشی افسر کو بولنے دیا جائے۔ اکرم قریشی نے سرکاری وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں تو آپ آگے آئیں۔

تفتیشی افسر نے مختلف سوالات کے جوابات دیتے ہوئے بتایا کہ جب اسے قتل کی اطلاع ملی تو وہ آبپارہ آفس میں تھا، جس پر وہ وہاں سے تھانہ کوہسار پہنچا تھا۔ اس وقت ہیڈ محرر نے انہیں بتایا کہ اس وقت تک کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔ تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ ایس او پیز کے مطابق قتل کے مقدمات کی تفتیش صرف ہومیسائیڈ یونٹ ہی کر سکتا ہے۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *