
افغانستان میں قائم طالبان حکومت کی جانب سے مذہبی تعلیمات سے متعلق ایک نیا ضابطہ اخلاق کیا گیا ہے۔ جس میں ملک کے تمام ٹی وی چینلز کو باور کرایا گیا ہے کہ وہ ایسے تمام ڈرامے اور پروگرام بند کردیں، جس میں خواتین کو دکھایا جاتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق یہ نیا ضابطہ اخلاق طالبان حکومت کی مذہبی اور ثقافتی امور دیکھنے والی وزارت کی جانب سے ٹی وی چینلز کو جاری کیا گیا ہے۔ ساتھ خواتین صحافیوں کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ اپنی رپورٹ پیش کرنے یا خبریں پڑھنے کے لئے انہیں اسلامی حجاب پہنا ہوگا۔

اس موقع پر نئے ضابطہ اخلاق میں ایسے غیر ملکی مواد پر بھی پابندی لگادی گئی ہے جس میں مذہب اسلام کی عظیم شخصیات یا مذہب کے حوالے سے ناپسندیدہ بات کی گئی ہو۔ ساتھ ایسی تمام فلمیں یا ڈرامے یا پروگراموں پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا گیا یے، جو اسلام اور افغانی اقدار کے خلاف ہوں۔
وزارت کی جانب سے جاری کردہ ہدایات میں مزید کہا گیا ہے کہ اب ملک میں ایسی کوئی غیر ملکی فلم یا ڈراما بھی نشر نہیں کیا جائے گا، جس میں دوسرے ملک یا خطے کی ثقافت کو فروغ دیا جا رہا ہو۔

وزارتی ترجمان حکیف مہاجر کا اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ایسی فلمیں یا پروگراموں پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے، جو اسلامی اور افغانی اقدار کے خلاف ہیں۔ یہ نئی ہدایات حکومتی رولز نہیں بلکہ یہ مذہبی تجاویز ہیں۔
واضح رہے پچھلی طالبان حکومت کے دوران- 1996 سے 2001 تک اقتدار میں – ٹیلی ویژن کے ساتھ ساتھ میڈیا کی دیگر اقسام پر بھی پابندی عائد تھی۔ یہ نئی ہدایات طالبان حکومت کے اقتدارِ میں آنے کے بعد کئے گئے غیر معمولی اعلانات کئے تھے، جس میں انہوں نے طاقت کے استعمال میں اس بار زیادہ اعتدال پسند ہونے کا بڑا دعویٰ کیا تھا۔
مزید پڑھیں: افغانستان کی خواتین فٹبال ٹیم اہل خانہ کے ہمراہ پاکستان آگئی
سال 2001 میں امریکی قبضے اور طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد افغانستان میں امریکا سمیت مختلف مغربی ممالک نے ٹی وی چینلز اور شوبز انڈسٹری میں بھاری سرمایہ کاری کرکے خواتین کو مواقع فراہم کرنے کے منصوبے شروع کیے تھے۔ حالیہ گائیڈ لائنز بلاشبہ ان تمام قوتوں کے لئے کسی دھچکے سے کم نہیں ہے۔

مزید یہ کہ اب خواتین اور لڑکیوں کو فوری طور پر کام اور اسکول سے گھر میں رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ٹیلی ویژن پر خواتین پر پابندیوں کے بعد نئی حکومت کے تحت خواتین کی آزادیوں کو مزید محدود قرار دیا جا رہا ہے۔
خیال رہے خواتین کے ایک گروپ نے ستمبر میں کابل میں تمام مردوں پر مشتمل حکومت کے اعلان کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ جس پر طالبان کی جانب سے ان مظاہرین پر کوڑوں اور لاٹھیوں تشدد کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: ملک چھوڑنے کی کوشش، دو افغان شہری ہوائی جہاز سے گر کر ہلاک
ستمبر میں، طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پہلی بار افغانستان میں طلباء یونیورسٹی واپس آئے تھے۔ جہاں موجودہ حکومت نیا کوڈ آف کنڈکٹ متعارف کراتے ہوئے خواتین اور مردوں کے لئے علحیدہ علحیدہ جگہ مختص کی گئیں تھی، کلاس رومز میں درمیان میں پردے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ بعدازاں طالبان کی طرف سے لڑکیوں اور نوجوان خواتین کو سکول سے گھر میں رہنے کا حکم دیا گیا تھا۔
دوسری جانب طالبان کا دعویٰ ہے کہ کام کرنے والی خواتین اور تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں پر ان کی پابندیاں “عارضی” ہیں اور صرف اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ تمام کام کی جگہیں اور تعلیمی ماحول ان کے لیے “محفوظ” ہوں۔
0 Comments