یادگار دن


0
yaadgar-din

آج استانی صاحبہ نے جماعت چہارم کو ایک مضمون لکھنے کا کہا۔جماعت چہارم یعنی میری جماعت.اوہ اپنا تعارف کروانا تو میں بھول ہی گیا۔میرا نام عاقب ہے۔میں جماعت چھارم کا طالب علم ہوں۔ آج مس عائشہ جب اردو کی کالس لینے آئیں تو انھوں نے ہمیں ایک مضمون لکھنے کا کہا۔مضمون کا عنوان تھا یادگار دن۔کافی سوچ بچار کے بعد آخر مجھے یاد آ ہی گیا کہ میری زندگی کا سب سے یادگار دن کون سا تھا۔گرمی کی چھٹیوں میں اکثر میں اپنے گھر والوں کے ہمراہ اپنی دادی کے گھر جایا کرتا تھا۔اس سال بھی ہم دادی کے گھر گئے۔رات کو کھانے کے بعد تمام کزنز اکٹھے ہوئےاور کہیں گھومنے کا پروگرام بنایا۔کافی دیر بحث وتکرار کے بعد باآلخر یہ طے پایا کہ ہم ہرنوئی جائیں گے۔معذرت میں آپ کو یہ بتانا تو بھول ہی نام تو سنا ہی ہو گا۔یہ شہر پاکستان گیا کہ میرا گائوں کہاں ہے. میرا گائوں کےپی کے کے شہر ایبٹ آباد میں ہے۔ آپ نے یقیناً ملٹری اکیڈمی کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔یہاں کے مشہور مقامات میں شملہ پہاڑی،لیڈی گارڈن ،الیاسی مسجد،امبریال واٹرفال اور ہرنوئی سر فہرست ہیں۔ایبٹ آباد سے آگے واقع بھگنوتر گائوں کی پہاڑیوں سے آبشار بہتی ہے اور اس آبشار کا پانی پہاڑیوں کے درمیان سے بہتا بہتا ایبٹ آباد شہر کے مقام ہرنو سے گزرتا ہےاور یہاں اکثر سیاہ سیر وتفریح کے لیے آتے ہیں اسی لئے یہ جگہ کافی مشہور ہے۔خیر جیسے تیسے کر کے ہم نے رات گزاری،آپ تو جانتے ہی ہوں گے کہ پہر نیند کہاں آتی ہے۔باآلخر ہمارے انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور صبح آگئ ۔ناشتے کے بعد ہم سب نے سامان گاڑیوں تک پہنچایا جس میں موجود انگیٹھی اور سیخوں نے بچوں کے جوش کو خوب گرمایا۔سب بڑے تایا اب کی گاڑی میں بیٹھ گئے اور سب بچے کلیم بھائی کی جیپ میں،جو تھوڑے بہت گھر والے بچ گئے وہ ابا کی گاڑی میں سوار ہو گئے۔راستے میں ہم نے کافی ہال گال کیا ۔باآلجر جیسے تیسے تینوں گاڑیاں ہرنوئی پہنچیں ۔سب بچے باہر نکلے اور ادھر ادھر دیکھنے لگے۔منظر کافی خوش گوار تھا ۔ہماری بائیں جانب پانی رواں دواں تھا۔امی سے اجازت لینے کے بعد ہم نے اپنے جوتے اتارے اور پانی میں چلے گئے۔پانی گہرا نہیں تھا۔کچھ دیر بعد تکے پک کر تیار ہو گئے۔ہم نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور کھیلنے لگ گئے۔دادا جان کی آواز پر ہم سب بچے چل پڑے۔گاڑیاں وہیں چھوڑ کر ہم سب چل کر گئے۔تھوڑی ہی دور ایک پارک تھا۔سب اپنی مرضی کے جھولوں پر بیٹھے میں نے گھڑ سواری سے لطف اٹھایا کیونکہ جھولوں پر ہم اکثر بیٹھا کرتے تھے۔پھر شام کی چائے کا وقت ہوا۔جھولوں سے تھوڑے سے فاصلے پر ایک ڈھابا تھاڈھابے کی خاص بات یہ تھی کہ انہوں نے بیٹھنے کا انتظام پانی میں کیا ہوا تھا۔آپ لوگ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ پانی میں کیسے بیٹھتے ہیں۔غلطی میری ہی ہے میں نے بات ہی ایسی کی ہے۔خیر میں بتا ہی دیتا ہوں کیسے۔ڈھابے کے پاس سے جو پانی بہہ رہا تھا اس میں انہوں نے کرسیاں میزیں اور کچھ جگہوں پر چارپائیاں نصب کی ہوئی تھیں ۔چارپائی پر بیٹھتے ہی آپ کے پائوں پانی کے اندر ہوتے ہیں بس یہی خاصیت ہے اس ڈھابے کی۔چائے کافی اچھی تھی۔چائے پینے کے بعد ہم واپس چل پڑے۔مغرب کا وقت تھا جب ہم سب دربارہ گاڑی میں سوار ہوئے۔راستے میں گاڑی روکی گئی اور سب نے اتر کر مغرب کی نماز ادا کی۔باالخر نو بجے ہم گھر پہنچ گئے ۔یہ میری زندگی کا سب سے یادگار دن تھا۔مجھے بہت مزہ آیا ۔آپ سے مالقات ہوتی ہے انگلی قست میں تب تک کے لیے اپنا بھت سا خیال رکھیے گا۔ویسے میرا گائوں ایبٹ آباد ہے بہت خوب صورت ۔اگر آپ کا کبھی وہاں سے گزر ہو تو ہرنوئی جانا مت بھولیے گا


Like it? Share with your friends!

0
urdu-admin

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *