ظلم سہتی حوا کی بیٹیوں کو اعتماد کی ضرورت


0
Source: Google

آج کافی عرصے کے بعد موسم نے انگڑائی لی حبس اور گرمی کی شدت میں واضح کمی نظر آئی اور جا بجا آسمان پر گہری کالی بدلیاں رقص کرتی دکھائی دیں۔ جو کہ پچھلے کچھ دنوں سے مفقود تھیں۔ موسم اچھا ہو تو طبعیت پر بھی مثبت اثرات واضح دکھائی دیتے ہیں اور پھر موڈ کو جلا بخشنے کے لئے چائے کا کپ بھی حاضر خدمت تھا کہ اچانک کان کھڑے ہو گئے۔

خبریں پڑھنے والی کوئی خبر نشر کر رہی تھی۔ “کہ لاہور کے ایک ایلیٹ کلاس کے سکول میں طالبہ کو استاد کی جانب سے ہراساں کیا جانے کا الزام” خبر گئے کتنا وقت گزر گیا لیکن میرا دماغ وہی الجھا ہوا تھا تہہ در تہہ اور غلاف در غلاف گتھیاں سلجھانے میں مصروف۔۔

یہ اپنی نوعیت کی پہلی یا انوکھی داستان نہیں تھی۔بہرحال ایک ادیب معاشرے کا حصہ ہونے کی وجہ سے خواتین کو روزانہ مستقل بنیادوں پر طرح طرح کے چیلنجر کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ رب الجلال نے انکے مقدر میں لکھ دیا ہے کہ روز تمہارا طرح طرح کے مسائل سے واسطہ پڑے گا بازو پھیلا کر انہیں خوش آمدید کہنا حل کرنا اور پہلے سے زیادہ مضبوط ہو جانا۔.

پاکستان جیسے روایتی معاشرے میں منظر نامہ خاصہ سنگین ہے۔ کیونکہ ان میں زیادہ تر معاملات بے ساختہ ہیں۔ بعض اوقات جرم انتہائی سنگین ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ بات بھی قابل غور ہے کہ عورت ٹھان لے تو کایا پلٹ کر رکھ سکتی ہے۔ مجھے اختلاف ہے ہر اس انسان سے جو کہتا ہے کہ عورت”صنف نازک”ہے۔ میں پوچھتی ہوں کہاں سے؟ اپنی وجہ قطع سے یا بولنے چالنے سے؟ اگر عورت صنف نازک ہوتی تو آج یہ معاشرہ اتنا دلکش اور پر لطیف نہ ہوتا۔ صنف نازک سے مراد میں” نازکی” کو لیتی ہوں۔ عورت جتنا تو چٹان کوئی نہیں۔ یہ وقت پڑنے پر سیسہ پلائی دیوار کا روپ دھارتی ہے تو وقت پڑنے پر پانی کی طرح ایک لمحے میں رخ مورنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

عورت اللّٰہ کی تخلیق کردہ تخلیقات میں سے ایک خوبصورت ترین تخلیق ہے۔ عورت کیسے پروان چڑھے گی یہ اسکے گھر کی تربیت اور خاندان کا رویہ طے کرتا ہے۔ اسکا باپ اور بھائی اسے یا تو شیرنی بنائے گے یا پھر ڈری سہمی ہوئی کونے میں لگی ہوئی بکری۔ انہیں مضبوط بناؤ اتنا کہ اپنے سامنے اپنے اوپر پڑنے والی گندی نظر والے کی ناخنوں سے آنکھیں نوچ نکالے اور حلق میں ہاتھ ڈال کر کلیجہ نکال لے۔ لوگوں کے خوف سے انہیں گھروں میں مقید مت کرو۔ وقت کے تقاضوں کے مطابق حالات کا سامنا کرنا سیکھاؤ۔ وہ گرے گی لیکن! گرے گی تو اٹھے گی نا۔ کہتے ہیں کہ بیٹیاں جوان ہو تو دیواروں کو اونچا نہ کرو بلکہ محبت، یقین اور اعتماد کی مقدار بڑھا دو۔

کچھ ادارے اور کچھ مدرسے ایسے بھی ہیں جو سب اچھے اداروں اور مدرسوں کی عزت کو ملیا میٹ کر رہے ہیں۔ اساتزہ کا بچوں کو خوفزدہ کرنا ایک معمولی بات بن چکا ہے۔ کچھ ہفتوں قبل کا واقعہ “گومل یونیورسٹی” کے اسلامک سنٹر کے پروفیسر “صلاح الدین” جو یونیورسٹی میں ایک سے زیادہ عہدوں پر فائز تھے طالبہ کو ہراساں کرنے کے الزام میں انہیں اور 4 اور اساتذہ کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیا۔ ایک انتہائی اچھا قدم جو اٹھایا گیا۔

طالب علموں کے دل شیر ہوئے کہ کوئی انکی بھی دادرسی کرنے والا ہے۔ یہ ہراساں کرنے والی بیماری سیکھنے کی جگہوں پر ایک وبائی شکل کی صورت اختیار کرتی جارہی ہے۔ اساتزہ کے اچھے نام، عزت، مرتبہ، یہ پیغمبری پیشہ اور جانوروں کو انسان بنانے والوں سبکو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ گومل یونیورسٹی کی انتظامیہ اور اسکی جانب سے اٹھائے گئے مناسب اقدامات کی وجہ سے کمزور اور بے بس طلباء کے زخموں پر مرہم کا کام کیا۔ ان سب انسان نما جانوروں کی حرکات کی وجہ سے وہ سب کوششیں جو لوگوں نے خواتین کی تعلیم و تربیت کے لئے عرصہ دراز سے کی ان سب سکینڈلز کی وجہ سے انہیں بڑی طرح دھچکا لگا۔

خوف کی صورت میں اپنی بیٹیوں کی حوصلہ شکنی مت کرو بلکہ اس طرح کے درندوں کو انجام تک پہنچانے کے لیے انہیں اپنے ساتھ کا یقین دلاؤ تا کہ وہ گھٹن کا شکار نہ ہو۔

ردا بشیر، ظفر وال


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *