پاکستانی مہم جو ثمر خان نے 5 ہزار 610 میٹر بلند چوٹی سر کرلی


0

صوبہ خیبرپختونخوا کے قبائلی علاقے لوئر دیر سے تعلق رکھنے والی مہم جو اور سائیکلسٹ ثمر خان نے ہنزہ میں 5 ہزار 610 میٹر بلند چوٹی کو کامیابی کیساتھ سرکرتے ہوئے ملک’ بیک کنٹری سنو بورڈنگ’ کا ایک نیا کلچر’ متعارف کرادیا ہے۔اس چوٹی کا نام’غرِ ثمر ‘ ہی رکھ دیا گیا کیونکہ وہ اس چوٹی کو سر اور اس پر سنو بورڈنگ کرنے والی پہلی شخصیت ہیں۔

اس کارنامے میں ان کی ٹیم میں اعظم بیگ، حاشر رفیق، جعفر اللہ، اور زہران بیگ بھی شامل تھے۔ پاکستان میں بیک کنٹری سنو بورڈنگ کے کلچر سے ملک کے نوجوانوں کے لئے موسم سرما میں کھیلوں کا نیا راستہ کھول دیا ہے۔

Image Source: Instagram

بیک کنٹری سنو بورڈنگ بہت کم آبادی والے علاقوں میں عموماً سیزن کی پہلی برف باری میں دشوار گزار اور بلند پہاڑوں پر کی جاتی ہے۔

ثمر خان کا شمار نہ صرف خطے بلکہ دنیا کی نامور سائیکلسٹ ایتھلیٹس میں ہوتا ہے اور انہوں نے کئی اعزاز اپنے نام کر رکھے ہیں۔ وہ دنیا کی پہلی خاتون ہیں جنہوں نے گلگت بلتستان کے بیافو گلیشیئر پر 4 ہزار 500 میٹر بلندی پر سائیکلنگ کی تھی۔

ثمر خان ایک پروفیشنل سائیکلسٹ ہیں اور وہ 2016 میں گلگت بلتستان میں ساڑھے چار ہزار میٹر بلندی پر واقع قراقرم کے پہاڑی سلسلے میں بیافو گلیشیئر پر سائیکلنگ کرنے والی دنیا کی پہلی خاتون بنی تھیں، تاہم اب انہوں نے پاکستان میں موجود دنیا کے دوسرے بلند ترین پہاڑ کے ٹو کے بیس کیمپ تک سائیکل کے ذریعے جانے کا دعویٰ کیا ہے، جس پر کئی لوگ انہیں جھوٹا قرار دے رہے ہیں، اگرچہ ثمر خان کی جانب سے کے ٹو کے بیس کیمپ تک سائیکل کے ذریعے پہنچنے کے دعوے کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہوسکی لیکن حکومتِ پاکستان کی جانب سے انہیں مذکورہ کارنامہ سر انجام دینے پر مبارک باد پیش کی گئی، جس سے عندیہ ملتا ہے کہ ثمر خان کا دعویٰ درست ہے۔ اس کے علاوہ ثمر خان 2017 میں تنزانیہ میں واقع افریقہ کی بلند ترین چوٹی کیلمانجارو سر کی، اس چوٹی کو افریقہ کی چھت کہا جاتا ہے اور وہ 5 ہزار 895 میٹر بلند یہ چوٹی سر کرنے والی دنیا کی پہلی خاتون سائیکلسٹ بنیں۔ تنزانیہ کی وزارت سیاحت کی جانب سے ان کو اس کامیابی پر سرٹیفکیٹ بھی جاری کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: ٹی وی میزبان کی بدتمیزی پر قومی ہیرو ثمر خان آگ بگولہ

مزید برآں، ثمر خان کو ‘فخرِ پاکستان’ اور ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے لیے ‘خیر سگالی کی سفیر’ کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ثمر ماؤنٹین بائیکنگ، ہائیکنگ، ٹریکنگ، اسنو بورڈنگ اور ہر اس چیز میں مہارت حاصل کرچکی ہیں جس کا ایڈونچر اسپورٹس سے تعلق ہے۔ ثمر لڑکیوں کو ایڈونچر اسپورٹس کی تربیت بھی دیتی ہیں۔اس بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک میں لڑکیوں پر بہت ساری پابندیاں عائد ہیں اور انہیں بہت کم مواقع ملتے ہیں۔ میں انہیں اسپورٹس میں آگے بڑھتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہوں، بھلے وہ پروفیشنلی نہ سہی تفریحی طور پر ہی ایسا کریں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملک میں اسپورٹس کا کلچر ہی نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں آبادی کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے لیکن پھر بھی ہم کھیلوں کے بین الاقوامی مقابلوں میں 20 ایتھلیٹس تک نہیں بھیج سکتے۔

خیال رہے کہ گزشتہ دنوں پاکستانی کوہ پیما ثمینہ بیگ نے دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو سر کرلی ہے اور وہ یہ اعزاز حاصل کرنیوالی پہلی پاکستانی خاتون کوہ پیما بن گئیں۔ثمینہ بیگ نے یہ اعزاز اپنی 6 رکنی ٹیم کے ساتھ حاصل کیا۔اس موقع پر انہوں نے کہا کہ وہ خود کو خوش قسمت سمجھتی ہیں کہ انہیں کے ٹو کے اوپر کھڑے ہونے کا موقع ملا۔وہ پاکستانی ٹیم کی قیادت کر رہی تھیں اور انہوں نے چوٹی پر پاکستانی جھنڈا بھی لہرایا۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *