رزق ایک نعمت


0

”اسد بیٹا نیچے آجاؤکھانے وقت ہورہا ہے۔اب تو تمھارے ابّو بھی آنے والے ہیں۔”

اسد کی امی نے آواز لگائی۔

”بس آیا امی۔”

اسد نے اپنے کمرے سے ہی بلند آواز میں اطلاع دی۔

اسد ایک بہت محنتی اور ذہین بچّہ تھا۔وہ اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس کی ایک بہن بھی تھی جس کا نام عالیہ تھا۔عالیہ آٹھویں جماعت میں پڑھتی تھی جبکہ اسد عالیہ سے تین برس چھوٹا تھا اور پانچویں جماعت کا  طالبعلم تھا۔وہ پڑھا ئی میں نہایت اچھا تھا اور ہر سال اپنی جماعت میں اوّل آتا۔اسد ہر لحاظ سےبہت اچھا بچّہ تھاپر اس میں ایک بری عادت تھی۔وہ کھانا کھاتے ہوئے بہت سا کھانا ضائع کرتا  اور ہمیشہ کچھ کھانا پلیٹ میں چھوڑ بھی  دیتا۔امی ابو اور عالیہ اسے بہت سمجھاتے پر وہ کبھی برا مناتا اور کبھی اس بات کو مزاق میں اڑا دیتا۔

کھانے کی میز پر تمام افراد موجود تھے۔ ابو سربراہی کرسی پر براجمان تھے۔ انھوں نے چاول اپنی پلیٹ میں نکالے اور ڈش آگے بڑھا دی۔جب اسد نے ٖڈش سے چاول اپنی پلیٹ میں ڈالےتو ہمیشہ کی طرح چاول کے بہت سے دانے پلیٹ کے اطراف میں  گرا دیے پھر اسد کھانا کھانے میں مشغول ہوگیا۔ چند نوالے لینے کے بعد ہی اسد نے پلیٹ کھسکائی اور کھانے کی میز سے اٹھ گیا۔اس کے ابو اسکی یہ ساری کاروائی دیکھ رہے تھے۔

مزید پڑھیں: شرارت کا نتیجہ

”بیٹا آپنے چاول کے دانے  پلیٹ سے باہر گرایے ہوئے ہیں اور پورا کھانا ختم کیے بغیر ہی آپ جا رہے ہیں۔”

ابو جان نے نرمی سے اسد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔

”اسد بچے میں نے آپ کو کتنی بار سمجھایا ہے کے کھانا ضائع نہیں کرتے۔ اس دنیا میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جن کو تین وقت تو کیا دو وقت کی روٹی بھی نصیب نہیں ہوتی۔اللہ رب العزت نے آپ کو ہر طرح کی نعمتوں سے نوازا ہے۔کھانا بھی انھیں نعمتوں میں سے ایک ہے۔اس لیے کھانا ضائع نہیں کرتے۔”

امی نے بھی ابو کی بات میں اضافہ کیا۔

اسد حسب معمول اس بات پر ناراض ہو گیا اور کھانا  ادھورا چھوڑ کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔

کچھ دن بعد اسد اور عالیہ امی ابو کے ساتھ بازار گئے ۔ خریداری کے دوران اسد  نے فٹ پاتھ پر ایک آدمی اور ایک بچے کو بیٹھے دیکھا۔وہ آدمی  حلیے سے مزدور معلوم ہوتا تھا اور غلباً  وہ اس بچے کا والد تھا۔اس بچے کی عمر لگ بھگ آٹھ سے نو برس معلوم ہوتی تھی۔وہ بوڑھا مزدور اپنے بچے سے کہہ رہا تھا:

مزید پڑھیں: پانی کا ضیاع

”بیٹا آج کام نہیں مل سکا۔ کل کی اس روٹی پر ہی گزارہ کرنا پڑے گا۔”

”کوئی بات نہی بابا ! اللہ کا بہت زیادہ شکر ہے کے اس نے ہمیں کھانے کے لیے یہ روٹی بھی دی۔”

بچے نے یہ کہہ کر اس سوکھی روٹی کے دو حصّے کیے اور ایک حصّہ اپنے باپ کو پکڑا دیا۔

اس نے روٹی کا ایک نوالہ بنایا  اور پانی سے بھری پیالی میں بھگو کر کھانے لگا۔اسد ان باپ بیٹے کی ساری گفتگو سن چکا  تھا ۔اسے وہ تمام دن یاد آنے لگے جب اسنے کھانےکی بے حرمتی کی تھی اور کھانا ضائع کیا تھا۔اسے اپنے  کیے پر سخت پشیمانی ہوئی کے اس نے اللہ کے دیئے ہوئے رزق کی نا قدری کی جبکہ یہ لوگ ایک سوکھی روٹی پر بھی اپنے رب کا شکر ادا کرتے نہیں تھکتے۔اس نے اللہ  سے معافی مانگی اور گھر پہنچتے ہی اپنےگھر والوں سے بھی معافی مانگی اور آیندہ کبھی بھی کھانا ضائع نہ کرنے کا وعدہ بھی کیا۔امی ابو اسد کی اس اچانک  آنے والی تبدیلی پر حیران تو ہوئے پر اسکو ایک اچھی تبدیلی جان کر اسکی وجہ نہ پوچھی۔اس دن کے بعد سے اسد ہمیشہ اپنا کھانا ختم کرتا اور اللہ کا شکر ادا کرتا۔

پیارے بچّو!  کھانا اللہ کی دی ہوئی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔اس لیے رزق کی بےحرمتی نہ کریں اور اسے ضائع نہ کریں۔کوئی بھی چیز کھانے کے بعد اللہ کا شکر ادا کریں اور اور ناشکری سے بچیں۔


Like it? Share with your friends!

0
urdu-admin

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *