پی ایس ایل فائنل 2020 : جیتے کوئی بھی سہرا لاہور کے سر سجے گا


0

پی ایس ایل 2020 کا فائنل سترہ نومبر کو کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں کراچی کنگز اور لاہور قلندر کے مابین کھیلا جائے گا۔ دونوں ٹیموں نے پورے ٹورنامنٹ میں نہ صرف اعلی کارکردگی دکھائی بلکہ جان توڑ کوششیں کرکے فائنل تک رسائی حاصل کی۔ پی ایس ایل 2020 کا فائنل اس لحاظ سے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ یہ پاکستان کے دو بڑے شہروں کراچی اور لاہور کے مابین کھیلا جا رہا ہے ۔ یہ دو بڑے شہر نہ صرف کھیلوں کی سرگرمیوں میں ملک کے دیگر شہروں کے مقابلے میں آگے آگے ہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں خواہ سیاسی میدان ہو، ادبی منظر نامہ ہو، فنون لطیفہ کی دلچسپ تقاریب ہوں، کاروباری مواقع ہوں یا تعلیمی کارنامے ہوں یہ دونوں شہراپنی مثال آپ ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ فیشن ہو یا کھیل، کراچی اور لاہور کے مابین مقابلہ دلچسپ اور روایتی اہمیت کا حامل ہے۔ پی ایس ایل 2020 کا فائنل چونکہ کراچی اور لاہور کے درمیان ہے لہذا دونوں شہروں کے باسیوں میں اس میچ کو لیکر ایک ہائپ پیدا ہو چکی ہے جس کا اظہار سوشل میڈیا ہر زور و شور سے کیا جا رہا ہے اور دونوں شہروں کے مقامی رہائشی اپنی اپنی ٹیموں کی جیت کے لیے پر عژم ہیں۔

Image Source: Cricketpakistan.com.pk

پی ایس ایل کے فائنل کے حوالے سے اگر جذبات کے تلاتم سے نکل کر حقییقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے تو لاہور شہر کو کراچی پر اخلاقی فوقیت حاصل ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ کراچی کی ٹیم میں کوئی ایک کھلاڑی بھی ایسا نہیں ہے جس کا تعلق کراچی سے ہو۔

یہاں تک کہ کراچی ٹیم کی بیٹنگ لائن کی یڑھ کی ہڈی یعنی بابر اعظم کا تعلق بھی لاہور سے ہے اس کے علاوہ دیگر اہم کھلاڑیوں جیسے عماد وسیم، محمد عامر، عامر یامین، اور اویس ضیا کا تعلق یا تو لاہور سے ہے یا پنجاب سے ہے۔ دوسری جانب لاہور کی ٹیم میں اگرچہ زیادہ تر کھلاڑی لاہورکے علاوہ دیگر شہروں سے ہیں مگر چند ایک کا تعلق ضرور لاہور سے ہے جیسا کہ سلمان بٹ اور راجہ فرزان۔ اس کے ساتھ ساتھ محمد حفیظ اگرچہ سرگودھا میں پیدا ہوئے ان کے کرکٹ کیریئر میں لاہور شہر کا بڑا عمل دخل ہے ۔ کراچی کنگز کے برعکس لاہور قلندر میں کسی ایک کھلاڑی کا تعلق بھی کراچی سے نہیں ہے۔ اس تناطر میں لاہور کے شہری ون ون سیثویشن میں ہیں۔

Image Source: geosuper.tv

اس شرط پر کھیلوں گی پیا پیار کی بازی
جیتوں تو تجھے پاوں ہاروں تو پیا تیری

پی ایس ایل باقی ممالک کی سپر لیگ کی طرح مکمل پروفیشنل بنیادوں پر کھیلا جاتا ہے جس پر خطیر رقم خرچ کی جاتی ہے ، کھلاڑیوں کو بھاری معاوضے دیکر بولی کے ذریعے خریدا جاتاہے ۔ پی ایس ایل میں شامل تمام ٹیموں کے مالکان کاروباری شخصیات ہیں جو پیسہ کمانے اور خرچ کرنے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں۔ لہذا وہ کسی بھی کھلاڑی کو خریدتے وقت اس کے شہر کے بجائے اس کے کھیل کو فوقیت دیتے ہیں۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کہ کراچی شہر سے پائے کے کر کٹر ابھرے ہیں۔ جن میں حنیف محمد، ظہیر عباس، جاوہد میانداد، معین خان، راشد لطیف، اور شاہد آفریدی قابل ذکر ہیں تاہم گذشتہ کچھ عرصے سے کراچی شہر سے اعلی معیار کے کرکٹر سامنے نہیں آرہے۔ جس کی وجہ کراچی کے کھلاڑیوں کو نظر انداز کرنے کے باعث کراچی کے لڑکوں کا کرکٹ سے بددل ہو جانا ، کھیل کے میدان کی عدم دستیابی، مواقعوں کی کمی اور جسمانی سرگرمیوں کے بجائے آن لائن گیمز کی جانب رحجان کا بڑھ جانا ہے۔

بہرحال وجہ جو بھی ہو اس میں سب سے زیادہ قصور خود کراچی کے باسیوں کا ہے جو کرکٹ کھیلنے اور اس کو پروان چڑھانے کے بجائے صرف کرکٹ دیکھنے تک ہی محدود ہو گئے ہیں۔ نوجوان کھلاڑیوں کو دلبرداشتہ ہونے کے بجائے اس بات پر دھیان دینا چاہیئے کہ ظہیر عباس ہو یا جاوید میانداد،،، ان کو بھی آسان مواقع میسر نہیں تھے مگر انھوں نے ہمت نہیں ہاری اور کوشش جاری رکھی جس کے باعث وہ اسٹار کرکٹر کے طور پر ابھرے۔ بہرحال پی ایس ایل فائنل کے حوالے سے یہ بات تو صاف ظاہر ہے کہ فائنل کراچی کنگز جیتے یا لاہور قلندر، کراچی کے باسیوں کے پاس پانے اور لاہور کے باسیوں کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *