
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پر جو ڈالتے ہیں کمند
لگن اگر سچی ہو تو مقصد کا حصول ناممکن نہیں اس کی اعلیٰ مثال بلند حوصلہ عزیزہ خان ہیں جنہوں نے کوئٹہ کے ایک روایتی قبائلی گھرانے سے تعلق ہونے کے باوجود تعلیمی میدان میں قدم رکھا اور تمام تر رکاوٹوں کو پس پشت ڈال کر اپنے تعلیمی سلسلے کو رکنے نہیں دیا اور اپنی محنت سے آج پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کر رہی ہیں جس کے بعد ان کا خواب بیرون ملک سے ڈگری حاصل کرنا ہے۔
عزیزہ کے لئے پی ایچ ڈی کی ڈگری تک پہچنا آسان نہ تھا، بیٹی ،بیوی اور ماں کے منصب پر فائز ہونےکی وجہ سے اُن کو اس مقام تک پہچنے کیلئے کئی کٹھن راستوں سے گزرنا پڑا۔ قبائلی رواج کے مطابق محض 15 سال کی عمر میں جب وہ میٹرک میں زیر تعلیم تھیں تو ان کی شادی ہوگئی ۔ دوسال بعد جب ان کے گھر بیٹے کی پیدائش ہوئی، لیکن وسائل کی تنگی اور بچے کی علاج معالجے کے پیسے نہ ہونے کے سبب عزیزہ نے کمر کس لی اور اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کیلئے اپنے تعلیمی سلسلے کا دوبارہ آغاز کرنے کا عزم کیا۔
اپنےاس مقصد کو پانے اور تعلیمی اخراجات پورے کرنے کیلئے عزیزہ نے ٹیوشن پڑھایا اور پیسے جمع کیے۔ زندگی کے اس مرحلے پر ان کے بھائی نے ان کی بھرپور مدد کی۔

قبائلی رواج کے بر خلاف عزیزہ نے دوبارہ اپنی تعلیمی سلسلے کا آغاز کیا اور اپنی تعلیم کو شوہر اور سسر سے چھپا کر رکھا کیونکہ وہ تعلیم کے سخت خلاف تھے ۔جبکہ اس دشوار گزرراستے کو منزل تک پہچنانے کیلئے ان کی ساس نے ان کا بھرپور ساتھ دیا اور انہوں نے گھریلو امور اور بچوں کی ذمہ داری سنبھال لی تاکہ عزیزہ اپنا خواب پورا کرسکیں۔
زندگی جہد ِمسلسل کا نام ہے اور عزیزہ نے اس جدوجہد کو جاری رکھا۔ ان کے پاس فیس جمع کروانے کے پیسے نہیں تھے، اس لئے وہ اپنی مدد آپ کے تحت گھر والوں سے چھپ کر پڑھتیں تھیں۔ ان پر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انٹر کے امتحانات دینے کیلئے اُنکے پاس امتحانی مرکز تک پہچنے کا کرایہ نہیں تھا، انہوں نے اپنے شوہر سے مدد مانگی لیکن انہوں نے صاف انکار کردیا اور پھر بڑی مشکلوں سے وہ امتحان دینے پہنچی۔
بالاخر امتحان کا نتیجہ آیا لیکن مناسب رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے ان کے نمبر بہت کم آئے۔ لہٰذا اپنے لئے ٹیوشن کے اخراجات اور بچوں کی ضروریات کو پوری کرنے کیلئے عزیزہ نے سلائی کا کام شروع کردیا اور اس دوران پڑ ھتی بھی رہیں۔

دوسال کے عرصے میں انہوں نے بی اے کے امتحانات دیئے اور نتائج آنے سے پہلے ہی مقامی کالج میں بطور ٹیچر ملازمت اختیار کرلی۔ کم آمدنی، وسائل کی قلت اور شوہر کیطرف سے ذہنی اذیت کے باوجود باہمت عزیزہ نے پھٹے جوتوں کے ساتھ اس سفر کو جاری رکھا۔کالج میں پڑھانے کے ساتھ انہوں نے شام میں ایم اے میں ایڈمیشن لے لیا۔ ان کے اس جنون اور لگن کو دیکھتے ہوئےاکثر لوگ ان پر ہنستے مذاق اڑاتے لیکن انہوں نے کسی کی باتوں پر کان نہیں دھرے۔
عزیزہ نے اپنی کتابوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا ، گھر کی لائٹ بند ہوجاتی تو ہیٹر کی روشنی میں پڑھتیں اور جب ہیٹر بند ہوجاتا تو اسٹریٹ لائٹ کی روشنی میں پڑھتیں لیکن ہمت نہیں ہارتیں۔ ان کو اپنی اس محنت کا ثمر یہ ملا کہ انہوں نے اپنے پورے صوبے میں تیسری پوزیشن حاصل کرلی۔ ان کی اس کامیابی پر سب سے ذیادہ خوشی ان کی ساس، بچوں اور بھائی کو ہوئی جنہوں نے ہمیشہ ان کا ساتھ دیا جبکہ ان کے والد ، شوہر اور سسر ان سے پھر بھی نالاں رہے۔
عزیزہ نے قبائلی رسم ورواج کے باوجود اپنا تعلیمی سفر کو رکنے نہیں دیا وہ وسائل کی کمی کی وجہ سے اپنا ڈاکٹر بننے کا خواب تو پورا نہیں کر پائیں لیکن آج یہ باہمت خاتون پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کر رہی ہیں اور اسکے بعد سائنس کے شعبے میں بیرون ملک سے ڈگری حاصل کرنے کی خواہشمند ہیں۔
0 Comments