اُم کلثوم اور زہرا عبداللہ پاکستان اسکواش کے دو اُبھرتے ہوئے ستارے


0

ایبٹ آباد میں منعقد ہونے والے خواتین کی قومی اسکواش چمپیئن شپ میں شریک پشاور کی دو نوجوان بہنوں اُم کلثوم اور زہرا عبداللہ کی کارکردگی، محنت اور جذبے نے نہ صرف سب کو بہت متاثر کیا بلکہ اسکواش کورٹ میں انہوں نے اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دئیے ہیں۔

ان دو بہنوں نے دو سال کے عرصے کے اندر نہ صرف نیشنل چمپیئن شپ کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا ہے بلکہ مقابلوں میں اپنے سینیئر کھلاڑیوں کوٹف ٹائم دے کر اپنی موجودگی کا بھرپور احساس بھی دلایا ہے۔ نیشنل چمپیئن شپ میں شرکت کرنے والی ان دو بہنوں کے لیے اسکواش کھیلنا کبھی بھی آسان نہیں تھا۔

خبر رساں ادارے بی بی سی (اردو ) کو انٹرویو میں اُم کلثوم نے بتایا کہ پاکستان کے سب سے بڑے ایونٹ میں شرکت کی تو ان کے پاس اپنا ریکٹ بھی نہیں تھا۔ انھوں نے اپنے ساتھی کھلاڑیوں اور اپنی بہن سے ریکٹ مانگ کر میچز کھیلے تھے۔

Image Source: bbc.com

انٹرویو میں بی بی سی کے نمائندے کو اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں دونوں بہنوں نے بتایا کہ وہ پشاور کی رہائشی اور انٹر کی طالبات ہیں۔جب یہ دونوں بہنیں دوسری اور تیسری جماعت میں تھیں تو ان کے والد وفات پا گئے۔ اس حوالے سے زہرا عبداللہ نے کہا کہ ابو کی موجودگی میں ہمیں کوئی مسئلہ نہیں تھا مگر اس کے بعد مسائل کا آغاز ہو گیا۔ ان کی والدہ کو سلائی کڑھائی آتی تھی لیکن ان دونوں کے بہتر مستقبل کے لئے وہ نہ صرف گھر کا کام کاج کرتیں بلکہ محنت مزدوری بھی کرتی تھیں۔ اُم کلثوم نے بتایا کہ ان کی والدہ انھیں اکثر کہتی ہیں کہ میں چاہتی ہوں کہ زندگی میں جن مشکلات کا سامنا مجھے کرنا پڑا ہے تم دونوں کو ان کا سامنا کبھی بھی نہ کرنا پڑے۔ اس لیے وہ ہماری پڑھائی کے معاملے پر کبھی بھی کوئی سمجھوتہ نہیں کرتیں اور کھیلوں میں بھی بھرپور حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔

دونوں بہنیں گھر سے اسکواش کورٹ تک کیسے پہنچیں؟ اس بارے میں اُم کلثوم بتاتی ہیں کہ کالج میں اسپورٹس ٹیچر کے کہنے پر 14 اگست کے موقع پر ایتھیلیٹکس کے مقابلے میں حصہ لیا اور ریس میں اتنا تیز دوڑی کہ سب ایتھیلٹس کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اُم کلثوم کو پوزیشن لینے پر نہ صرف گولڈ میڈل ملا بلکہ دو سو روپے کیش انعام بھی دیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ میری زندگی کے وہ پیسے تھے جو مجھے اپنی محنت سے ملے تھے۔ مجھے ان پیسوں کی اتنی خوشی تھی کہ بتا نہیں سکتی۔ جب میں گھر گئی تو میں نے امی سے کہا کہ مجھے اسپورٹس میں جانا ہے۔ ہماری امی خود چاہتی تھیں کہ ہم زندگی میں کچھ کریں۔

Image Source: humsub.com.pk

پھر امی ہمارے ساتھ گئیں، تمام کھیل اور ماحول دیکھا تو ہمارے لیے سب سے اچھا انہیں اسکواش لگا کیونکہ یہ انڈور گیم ہے۔ انھوں نے یہ کھیل چن تو لیا لیکن اب مسئلہ وسائل کا تھا۔ اُم کلثم کہتی ہیں کہ ٹینس اور اسکواش مہنگے کھیل ہیں اسکواش کے ایک پروفیشنل ریکٹ کی قیمت کم سے کم سات ہزار روپے ہے۔ جب ہم نے کھیلنا شروع کیا تو نہ ان کے پاس جوتے تھے، نہ ریکٹ اور اس کے لیے انھیں وہاں موجود دیگر کھلاڑیوں سے یہ چیزیں مانگ کر کھیلنا پڑتا تھا۔ زہرا عبداللہ کا کہنا تھا کہ گھر کے حالات اور امی کی محنت ہم سے ڈھکی چھپی ہوئی نہیں تھی۔ ہم ان سے گیند، جوتے اور ریکٹ کا مطالبہ نہیں کر سکتے تھے۔ پھر جب ہم نے پشاور میں اپنا پہلا ٹورنامنٹ کھیلا تو اس میں انعامات جیتے۔ اس موقع پر ہماری ملاقات اسکواش کے سابق عالمی چیمپیئن اور پاکستان سکواش فیڈریشن کے نائب صدر قمر الزمان سے ہوئی انہوں نے ہمیں ریکٹ دئیے ۔ ان کی جانب سے دیئے گئے ریکٹ ہمارے پہلے ذاتی ریکٹ تھے۔

اس حوالے سے اُم کلثوم نے بی بی سی کے نمائندے کویہ بھی بتایا کہ نیشنل چمپیئن شپ میں شرکت سے قبل میرا ریکٹ خراب ہو گیا تھا۔ پہلے بھی ہمارے ریکٹ خراب ہوتے رہتے تھے لیکن ہم انھیں ٹانکا وغیرہ لگا کر استعمال کر لیتے تھے مگر اس دفعہ وہ اس طرح ٹوٹا کہ جڑ نہیں سکا اور فوری طورپر نیا ریکٹ خریدنے کی گنجائش نہیں تھی لہٰذا مجبوراً کبھی بہن اور کبھی ساتھی کھلاڑیوں سے مانگ کر گزارہ کیا ہے اور اپنا ریکٹ نہ ہونے کی وجہ سے نیشنل چمپئیں شپ میں کارگردگی پر بھی اثر پڑا۔

اپنے محدود وسائل کے بارے میں بات کرتے ہوئے زہرا عبداللہ کا کہنا تھا کہ اب ہم قومی سطح پر پروفیشنل کھیل رہی ہیں۔ مختلف شہروں کے دوروں کے موقع پر ہمیں ہاسٹل میں رہائش کے لیے جگہ فراہم کی جاتی ہے باقی اخرجات ہمیں خود برداشت کرنے پڑتے ہیں ۔

اس حوالے سے مزید جانئے: ثمن ذوالفقار پاکستان کی پہلی خاتون میچ ریفری

انھوں نے کہا کہ مختلف ٹورنامنٹ میں حصہ لینے پر کچھ کیش انعام بھی مل جاتے ہیں مگر اس کے باوجود ابھی بھی ہماری مالی مشکلات کم نہیں ہوئی ہیں اس لئے کئی مرتبہ اخراجات کے پیسے نہ ہونے پر ہم نے کئی ٹورنامنٹ میں حصہ ہی نہیں لیا۔

زہرا عبداللہ کا کہنا تھا کہ ہم لوگ کرائے کے مکان میں رہتے ہیں اور اس کا کرایہ کافی زیادہ ہے۔ جس کا حل یہ نکالا ہے کہ ہم مالک مکان کے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی ہیں۔ جس وجہ سے وہ ہم سے کم کرایہ وصول کرتے ہیں ۔محلےکے کچھ اور لوگوں نے بھی اپنے بچوں کو ٹیوشن پڑھوانا شروع کردیا ہے جس سے امی کی کچھ مالی مدد ہوجاتی ہے۔

زہرا عبدللہ نے یہ بھی کہا کہ ہمیں گھر کے دروازے سے اسکواش کورٹ تک ہمیں مشکلات در مشکلات کا سامنا رہا ہےوہ بتاتی ہیں کہ ہم دونوں بہنیں اپنی حدود، ثقافت جانتی ہیں، ہمارے لیے خود اس کی بہت اہمیت ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ہم مکمل حجاب کرتیں ہیں پھر بھی لوگ ہم پر آوازیں کستے ہیں ، لوگوں کے ان رویوں سے شدید تکلیف ہوتی ہے لیکن ہم ہمت نہیں ہارتے کیونکہ اسپورٹس نے ہمیں مضبوط اور پُر اعتماد بنادیا ہے۔ اس میں ہماری امی کا سب سے بڑا کردار ہے جو ہمارے لئے انتھک محنت کر رہی ہیں۔

مستقبل میں زہرا عبداللہ کھیلوں کے ساتھ میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں جبکہ اُم کلثوم کھیلوں ہی میں اپنا کیرئیر بنانے کی خواہش مند ہیں اور مستقبل میں فیشن ڈیزائننگ پڑھنا چاہتی ہیں۔

زہرا عبداللہ کا کہنا ہےکہ ہم پروفیشنل اسپورٹس میں داخل تو ہوگئےہیں مگر تعلیم کا سلسلہ نہیں چھوڑیں گے۔

Courtesy: BBC Urdu


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *