میرا اسکول میرے لئے زندگی اور موت کا معاملہ ہے، مختاراں مائی


0

مختاراں مائی نے میروالا میں اپنا اسکول واپس کھولنے اور تعلیمی سرگرمیاں کو جاری رکھنے کے لئے وزیر اعظم عمران خان سے فنڈزکی فراہمی کے لیے مدد کی اپیل کردی۔

مختاراں مائی کی ہمت کی داستان سے کون واقف نہیں۔ مختاراں مائی کا شمار ان بہادر خواتین میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے حق کے لئے آواز بلند کی اور اپنے ساتھ بدسلوکی کرنے والوں کو قوانین کے تحت سزا دلوائی تھی ۔ اگرچہ مختاراں مائی نے اپنی بہادری کے سبب عالمی شہرت حاصل کی لیکن آج بھی وہ جنوبی پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ کے گاؤں میر والا میں رہتی ہیں جہاں انہوں نے زندگی کے کئی نشیب وفراز دیکھے ہیں۔

Image Source; Twitter

مختاراں بی بی پاکستان میں خواتین کے حقوق کے فروغ اور دفاع کے لئے کام کر رہی ہیں اور وہ یہ بھی جانتی ہیں کہ خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے تعلیم سے آراستہ کرنا ضروری ہے اور اس مقصد کے لئے انہوں نے تین اسکول کھول کر اپنے سفر کا آغاز کیا۔

2002میں مختاراں مائی نے اپنے گاؤں میر والا میں “مختاراں مائی گرلزماڈل اسکول ‘‘ کا آغاز کیا۔ انہوں نے 18 سال تک فنڈز کے ذریعے اس اسکول کو چلایا۔ لیکن اب فنڈز کی کمی کی وجہ سے انہیں اسکول چلانے کے لئے حکومت کی مدد درکار ہے۔

Image Source: CNN

پڑھلو سے ٹیلیفونک انٹرویو میں مختاراں مائی نے بتایا کہ “انہوں نے یہ اسکول 2002 میں قائم کیا تھا اور تب سے وہ خود ہی اسے منظم طریقے سے چلارہی تھیں ۔ تاہم ، اب وہ اساتذہ کو تنخواہوں کی ادائیگی کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ انہیں خاطر خواہ فنڈز نہیں مل رہے۔”

انہوں نے مزید بتایا کہ میر والا میں ایک پرائمری اسکول کی حیثیت سے شروع ہونے والے اس اسکول میں آج کم از کم 620 طلباء زیر تعلیم ہیں بلکہ یہ میر والا کا واحد ہائر سیکنڈری اسکول ہے جس کے طلباءکا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے کیوں کہ حکومت کی جانب سے کورونا وائرس میں لگنے والے لاک ڈاؤن کےختم ہونے کے باوجود مختاراں مائی کا اسکول ابھی بھی بند ہے۔

Image Source: CNN

مختاراں مائی نے کہا کہ “میرے لئے تین سال پہلے بھی اسکول چلانا مشکل ہوگیا تھا لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری لیکن پچھلے پانچ مہینوں سے سخت مشکالات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔”

مختاراں مائی کے مطابق انہوں نےپنجاب میں سرکاری افسران ، متعلقہ محکمہ تعلیم یہاں تک کہ مظفر گڑھ میں ضلعی سطح پر بھی دروازے کھٹکھٹائے ہیں اور انہوں نے پنجاب کے وزیر تعلیم ڈاکٹر مراد راس کو بھی خطوط لکھےلیکن تاحال کہیں سے کوئی مدد نہیں ملی۔اس حوالے سے وہ کہتی ہیں کہ “دوسروں سے مدد لینا آسان نہیں ہے۔ میرا اسکول میری ذمہ داری ہے لیکن ضلعی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ یہ وفاقی اور پنجاب حکومت کی بھی ذمہ داری ہے۔”

Image Source: CNN

مختاراں بی بی نے مزید کہا کہ، ” لوگ بس یقین دہانی کرواتے ہیں اور وعدے کرتے ہیں لیکن عملی طور پر کچھ نہیں ہو رہا اب تو پانچ مہینےگزر گئے ہیں۔”

واضح رہے کہ وزیر اعظم عمران خان بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ معیاری تعلیم کی فراہمی موجودہ حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ تب حکومت پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ جو لوگ پاکستان میں تعلیم کے لئے کوشاں ہیں ان کے ساتھ لازمی طور پر تعاون کرے۔ اس ضمن میں مختاراں مائی کو یہ بتایا گیا ہے کہ اسکول کو چلانے کے لئے 20 ملین روپے درکار ہیں جس کے لئے بجٹ کی منظوری ضروری ہےجو 2021 سے پہلے ممکن نہیں ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت تک اسکول کے بچے کیا کریں گے؟جبکہ دوسری جانب اسکول میں زیر تعلیم بچوں کے والدین بھی پریشان ہیں اور وہ مختاراں مائی کو فون کرتے رہتے ہیں ۔لیکن اب وہ ان کی کال کے جواب نہیں دیتیں کیوں کہ وہ کہتی ہیں کہ میرے پاس ان کے خدشات کے کوئی جوابات نہیں ہیں۔ مختاران مائی نے پڑھلو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ “میرے اسکول کے متعدد اساتذہ بھی اس لئے چلے گئے ہیں کہ میں انہیں تنخواہ نہیں دے سکی ۔”

Image Source: Twitter

یہ بتاتے ہوئے کہ یہ اسکول ان کے دل کے کتنے قریب ہے انہوں نے کہا ، “اگر آپ اسکول کے نام سے میرا نام حذف کرنا چاہتے ہیں تو میں اس کے لئے تیار ہوں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں اسکول کا اختیار حکومت کے حوالے کردوں تو مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ میں صرف اتنا چاہتی ہوں کہ اپنے اسکول کو دوبارہ چلتا ہوا دیکھوں۔”

“میرا اسکول میرے لئے زندگی اور موت کا معاملہ ہے کیونکہ یہ میرے 18 سال کی محنت ہے۔ میں اسے دیکھنے اور دوبارہ چلانے کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں۔ لیکن میں مدد مانگتے ہوئے تھک گئی ہوں۔ ”مختاراں مائی نے روندھی ہوئی آواز میں کہا کہ ، “میں اپنے اسکول میں پڑھنے والے بچوں کے مستقبل کے بارے میں سوچنا نہیں چھوڑ سکتی۔ “

طلباءکی تعلیم کے لئے پریشان مختاراں مائی نے پاکستان کی عوام کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کردیا ہے کیونکہ عطیات کی عدم دستیابی اورحکومتی عہدیداروں درخواستوں کو نظرانداز کرنا ان کے لئے شدید پریشانی کا سبب ہے کیونکہ یہ صرف ایک نہیں بلکہ 620 طلباء کے مستقبل کاسوال ہے جو اپنے والدین کے لئے امید کی کرن ہیں۔ ضرروت اس امر کی ہےکہ حکومت فوری اقدامات کے ذریعے ان بچوں کا مستقبل تاریک ہونے سے بچائے۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *