
سندھ کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بلدیاتی انتخابات جلد ہونے والے ہیں جس میں شہر کے میئر کا انتخاب کیا جائے گا۔ سندھ میں 2013ء کے بلدیاتی ایکٹ کے بعد میئر کے اختیارات کم ہوگئے ہیں البتہ پاکستان کے برعکس دیگر ترقی یافتہ ممالک جیسے امریکہ اور برطانیہ سمیت دنیا بھر کے بڑے شہروں اور دارالحکومتوں کے میئرز ہی اس ملک کے سب سے طاقتور اور بااثر ’حکمران ‘سمجھے جاتے ہیں ۔

میئر کا انتخاب کیسے کیا جائے گا؟

شہر کا میئر منتخب کرنے کے لئے کراچی شہر کی 246 یونین کمیٹی ( یو۔سی) میں الیکشن ہونگے ،جس میں عوام اپنے ووٹ کے ذریعے یو۔سی کے چیئرمین اور وائس چیئرمین کا انتخاب کرے گی۔ اس طرح الیکشن میں حصے لینے والی سیاسی پارٹی کا امیدوار پہلے 246 یوسی سے چیئرمین منتخب ہوگا پھر وہ چیئرمین یونین کونسل اور سٹی کونسل کے بعد وہ میئر کا انتخاب کرے گا۔
میئر کون ہوتا ہے؟

میئر کراچی درحقیقت کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کا مئیر ہوگا، یہاں توجہ طلب بات یہ ہے کہ اس میئر کے زیر انتظام پورا شہر تو ہوگا لیکن اس کے پاس پورے شہر کے انتظامات نہیں ہونگے۔ میئر کے پاس اب صرف کے ایم سی اور اس سے ملحقہ ریونیو ریسورسز کے اختیارات ہونگے کیونکہ 2013ء کے بلدیاتی ایکٹ کے بعد میئر اور دیگر عوامی نمائندوں کے اختیارات کم ہوگئے ہیں اس لئے اب جس بھی سیاسی پارٹی کا امیدوار شہر کراچی کا میئر بنے گا وہ تمام معاملات میں وزیر اعلیٰ سندھ کا محتاج ہوگا، اور ہر مسئلے پر اُسے وزیر اعلیٰ کی منظوری لینی ہوگی۔
میئر کے پاس کیا کیا اختیارات ہونگے؟

واضح رہے کہ کے ایم سی کی حدود میں کراچی کا صرف 34 فیصد حصہ آتا ہے باقی حصہ کنٹونمنٹ بورڈ، کے پی ٹی، اسٹیل مل اور دیگر اداروں کے پاس ہے۔ اختیارات میں کمی کی وجہ سے میئر کراچی کے پاس جو 34 فیصد اختیارات ہوتے تھے وہ بھی اب 14 فیصدرہ گئے ہیں۔
سال 2013ء کے ایکٹ کے بعد جتنے بھی اہم ادارے ہیں جیسکہ کے ایم سی، کے ڈی اے، کے بی سی، واٹر بورڈ، سندھ سولڈ ویسٹ مینجمینٹ کے تمام تر اختیارات سندھ حکومت کے پاس ہیں۔ اس طرح اب نا تو میئر کراچی شہر کا کچرا صاف کرسکتا ہے، نا ہی غیر قانونی تعمیرات کو روک سکتا ہے اور ناہی وہ کے ایم سی کے تحت کوئی کام کروانے کے اختیارات رکھتا ہے۔
کراچی کے میئر کے پاس اب صرف کے ایم سی اور اس سے ملحقہ ریونیو ریسورسز جیسکہ لینڈ ڈپارٹمنٹ، اینٹی انکروچمنٹ، کے ایم سی کے زیر انتظام چلنے والے 14 اسپتال، ریکری ایشنل سائٹ جیسکہ سفاری پارک ، چڑیا گھر اور کراچی کی 106 سڑکیں اس کے زیر انتظام ہوں گی۔ جبکہ ایک دور میں بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، تعلیمی ادارے، کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور طبی سہولیات کراچی کی شہری حکومت کے انتظامی کنٹرول کے ماتحت تھے۔
0 Comments