شہر قائد کی 17 سالہ باہمت خاتون رکشہ ڈرائیور


-1

کراچی پر سڑک کنارے ایک سگنل پر 17 سالہ علیشہ عبایا پہنے رکشے کی ڈرایئونگ سیٹ پر بیٹھی کسی سواری کا انتظار کررہی ہے، رکشے کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے کا یہ منظر پاکستان میں عام نہیں کیونکہ رکشے کو مکمل مردانہ سواری سمجھا جاتا ہے۔ 

کہتے ہیں کہ وقت سب سے بڑا استاد ہے، جو مشکل حالات سے نمٹنے کا گُر بھی سکھا دیتا ہے۔اس کی مثال علیشہ عبدالجمیل ہیں، جنہیں آپ کراچی کی سڑکوں پر رکشہ چلاتے دیکھ سکتے ہیں۔

Image Source: Screengrab

پہلے وہ بھی عام بچیوں کی طرح گھر میں رہ کر زندگی گزار رہی تھی لیکن چھ ماہ قبل اچانک والد کی وفات کے بعد جب گھر میں فاقوں کی نوبت آئی تو انہوں نے کسی اور کی مدد لینے کے بجائے اپنے والد کا رکشہ خود چلانا شروع کردیا۔ علیشہ اپنی 6 بہنوں میں سب سے چھوٹی ہیں، ان کی چار بہنوں کی شادی ہوچکی ہے جبکہ وہ اپنی والدہ اور ایک بہن کے ہمراہ کراچی کے علاقے شاہ فیصل کالونی میں کرائے کے گھر میں رہتی ہیں۔

Image Source: Screengrab

ان کے والد جمیل ایبٹ آباد سے تعلق رکھتے تھے، جو رکشہ چلا کر گزارا کرتے تھے، تاہم شوگر اور دیگر بیماریوں کے باعث چھ ماہ قبل اُن کا انتقال ہوگیا۔ موت سے قبل جمیل کو احساس ہوگیا تھا کہ بیٹا نہ ہونے کے باعث اس کے بعد پورا گھر مشکل میں آجائے گا، اس لیے چھوٹی بیٹی علیشہ کو رکشا چلانا سکھا دیا۔ اب چاہے گرمی ہو یا سردی، بارش ہو يا کیسا بھی موسم علیشہ صبح 8 بجے گھر سے رکشہ لیکر نکل جاتی ہیں اور شام 7 بجے تک گھر واپس آتی ہیں۔

Image Source: Screengrab

ملک میں پیٹرول مہنگا ہونے سے علیشہ کی کمائی کا بڑا حصہ اس میں لگ جاتا ہے اور جس طرح سے وہ محنت کر رہی ہے اس حساب سے آمدنی کم ہوتی جارہی ہے لیکن اللہ کا شکر ہے کہ وہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلائے بغیر وہ اپنے گھر کا خرچہ پورا کرنے کی کوشش کررہی ہے۔اُن کی والدہ خود بھی سمجھتی ہیں کہ جوان بچی کا رکشہ چلانا آسان نہیں کیونکہ اسے سڑکوں پر لوگوں کے فقرے، جملے اور نامناسب رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اس کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ بھی نہیں۔

عام بچیوں کی طرح علیشہ بھی پڑھنا چاہتی ہے، اس نے رکشہ چلانے سے پہلے کئی جگہ نوکری کی کوشش بھی کی مگر کم عمر ہونے کی وجہ سے کہیں کوئی نوکری نہیں ملی۔ معاشی مشکلات سے دوچار علیشہ نے حکومت سے اپیل کی کہ اُسے کوئی چھوٹا سا گھر دلایا جائے کیونکہ محدود آمدنی کے ساتھ کرائے کے گھر میں رہنا ممکن نہیں۔

مزید پڑھیں: روبیہ ندیم کا موٹر سائیکل سیکھنا، شوق سے ضرورت کیسے بنا؟

ملک میں کمر توڑتی مہنگائی ، ملازمتوں کے کم مواقع اور بہترین آمدنی کے ذرائع کے لئے اب خواتین کی اچھی خاصی تعداد ملازمتوں کے بجائے اپنے کاروبار کرنے کو ترجیح دے رہی ہے بلکہ اب کئی خواتین ایسے پیشے بھی اختیار کررہی ہیں جو پہلے صرف مردوں تک مخصوص تھے۔صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد سے تعلق رکھنے والی شازیہ ناہید نے شوہر کے چھوڑ جانے کے بعد اپنے بچوں کی کفالت اور رزق حلال کمانے کے لیے علیشہ کی طرح رکشہ چلانے شروع کیا تھا۔ وہ ہر روز اپنے اور محلے کے بچوں کو اسکول پہنچاتی اور واپس لاتی ہیں، جس کے بعد کا وقت وہ بازار میں سواریوں کے لیے رکشہ چلا کر گذارتی ہے۔

مزید برآں، راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی فرحین زہرا کا شمار بھی ان باہمت خواتین میں ہوتا ہے ، وہ اسلام آباد کے ایک کالج میں بی ایس کیمسٹری کی طالبہ ہیں، اور دن میں کالج جبکہ شام میں فوڈ پانڈا رائیڈر کا کام کرکے اپنی پڑھائی اور گھر کے اخراجات پورے کررہی ہیں۔

Story Courtesy: Dialogue Pakistan


Like it? Share with your friends!

-1

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *