جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے لاہور ہائی کورٹ کی جج جسٹس عائشہ ملک کو سپریم کورٹ کا جج بنانے کی سفارش کر دی ہے۔
ذرائع کے مطابق پارلیمانی کمیٹی کی منظوری کی صورت میں جسٹس عائشہ ملک پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کی پہلی خاتون جج ہوں گی۔
جوڈیشل کمیشن کا اجلاس سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد کی صدارت میں ہوا جس میں جسٹس عائشہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں تقرر کی منظوری پانچ چار سے دی گئی۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد، جسٹس عمر عطا بندیال اور سابق جج جسٹس (ر) سرمد عثمان جلالی نے عائشہ ملک کی حمایت کی۔
وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم اور اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے بھی جسٹس عائشہ ملک کی تعیناتی کی حمایت کی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس مقبول باقر اور بار کے نمائندے نے اس تقرری کی مخالفت کی۔
واضح رہے کہ جسٹس عائشہ ملک لاہور ہائی کورٹ میں سینیارٹی کے مطابق چوتھے نمبر پر ہیں، جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں تقرری کے خلاف پاکستان بار کونسل نے ہڑتال کا اعلان کیا تھا جس کی وجہ سے گزشتہ برس 9 ستمبر کو جسٹس عائشہ ملک کا معاملہ مؤخر کردیا گیا تھا۔ اس میٹنگ کے دوران آٹھ رکنی جے سی پی کے چار ارکان نے جسٹس ملک کو ترقی دینے کی تجویز کی مخالفت کی تھی۔ ان کی ترقی کا فیصلہ کرنے والا جے سی پی اجلاس چیف جسٹس گلزار احمد کی زیر صدارت ہوا جس نے اگست میں ان کو ترقی کے لیے نامزد کیا تھا۔
تاہم ،اگر آٹھ رکنی دو طرفہ پارلیمانی کمیٹی سے منظوری کے بعد جسٹس عائشہ ملک کو ترقی دی جاتی ہے تو وہ مارچ 2031 تک سپریم کورٹ کی جج رہیں گی نہ صرف یہ بلکہ انہیں پاکستان کی پہلی خاتون چیف جسٹس بننے کا موقع بھی مل سکتا ہے۔عائشہ ملک کی اس تقرری پر سوشل میڈیا صارفین کے ساتھ سیاسی و سماجی شخصیات بھی بڑے جوش و خروش کے ساتھ اپنے ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ تقرری پاکستان میں “خواتین کے لیے ایک عظیم دن” ثابت ہوگا۔
خیال رہے کہ جے سی پی کے نئے رکن جسٹس سردار طارق مسعود نے اس سے پہلے کئی بنیادوں پر جسٹس عائشہ ملک کی نامزدگی کی مخالفت کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں ایک خاتون جج کو سیٹ مختص کرنا آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی کرے گا۔ جبکہ وکلاء جے سی پی کے دونوں فریقوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ ججوں کی تقرری کے معیار پر اتفاق رائے پیدا کریں۔ وکلاء تنظیموں کا مؤقف تھا کہ سپریم کورٹ میں جج کے تقرر کے لیے سنیارٹی کے اصول کو مدِ نظر رکھا جائے اور ہائی کورٹ کے سینئر ترین جج کا تقرر سنیارٹی کی بنیاد پر سپریم کورٹ میں کیا جانا چاہیے۔
اس حوالے سے گذشتہ روز ’وویمن اِن لا‘ پاکستان کے نام سے قائم خواتین وکلا کی تنظیم کی طرف سے ایک بیان جاری کیا گیا تھا جس میں یہ موقف اپنایا گیا کہ سپریم کورٹ میں سنیارٹی کی بنیاد پر ججوں کی تعیناتی ابھی تک ایک معمہ ہے اور اس حوالے سے نہ تو ملکی آئین میں کچھ لکھا گیا ہے کہ سینیارٹی کو مدنظر رکھا جائے اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی قانونی رکاوٹ ہے۔ اس بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ سپریم کورٹ کی تاریخ میں چالیس کے قریب ایسی مثالیں موجود ہیں جس میں ججوں کو سینیارٹی کی بنیاد پر سپریم کورٹ میں جج تعینات نہیں کیا گیا۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ سینیارٹی کا اصول صرف چیف جسٹس کی تعیناتی میں ہی لاگو ہوتا ہے۔
علاوہ ازیں ، نئی تاریخ رقم کرنے والی جسٹس عائشہ اے ملک نے امریکہ میں ہارورڈ لا اسکول سمیت پاکستان اور بیرون ملک سے تعلیم حاصل کی۔ وہ سابق چیف الیکشن کمشنر اور نامور قانون دان جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم کی ایسوسی ایٹ رہیں اور لگ بھگ چار برس تک یعنی 1997 سے لے کر 2001 تک ان کے ساتھ بطور معاون کام کیا۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی خاتون جج کی سپریم کورٹ میں تقرری ہوگی جو یقیناً ایک اعزاز ہے، تاہم اگر ان کی تقرری کی سفارش نہ بھی ہوتی تو امکان یہی تھا کہ وہ 2026 میں لاہور ہائیکورٹ کی چیف جسٹس بن سکتی تھیں جو اپنی نوعیت کا ایک الگ اعزاز ہوتا۔
کراچی،14 اپریل 2025: پاکستان میں نفسیاتی تجزیاتی سوچ کو فروغ دینے کی ایک پرعزم کوشش…
سوئی سدرن گیس لمیٹڈ کمپنی نے رمضان المبارک میں گھریلو صارفین کیلیے گیس کی لوڈشیڈنگ…
کراچی سمیت سندھ بھر میں اس سال نویں اور دسویں جماعت کا شیڈول تبدیل کر…
فروری سال کا وہ مہینہ ہے جو محض 28 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے اور…
پاکستان کرکٹ ٹیم کیلئے چیمپئنز ٹرافی کے اگلے راؤنڈ تک جانے کا سفر مشکل ہوچکا…