جس دن مرض کی تشخیص ہوئی وہ دن میرے لئے خوشی کا تھا


0

دور جدید میں کینسر یا سرطان اب ماضی کی طرح لاعلاج مرض تو نہیں رہا مگر اس کا علاج بہت تکلیف دہ اور طویل ثابت ہوتا ہے جبکہ اس کے اثرات کے نتیجے میں وزن میں کمی ،بالوں سے محرومی اور کئی دیگر سائیڈ ایفیکٹ کا بھی سامنا ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات جان لیں کہ کینسر راتوں رات آپ کے جسم کو نشانہ نہیں بناتا بلکہ اس کے لیے کافی عرصہ درکار ہوتا ہے اور یہ صرف بڑھاپے میں نہیں بلکہ کسی بھی عمر میں حملہ آور ہو سکتا ہے۔

خبر رساں ادارے انڈیپینڈنٹ اردو کے مطابق تین سال پہلے اسرا زاہد میڈٰکل پڑھنے کا خواب لے کر سعودی عرب سے پاکستان آئیں تھیں ،لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ ایک معمولی سی کھانسی ان کو غدود کے کینسر میں مبتلا کرکے ان کی صحت کو بری طرح متاثر کردیگی۔

Image Source: Screengrab

اس حوالے سے انڈس اسپتال میں غدود اور خون کے کینسرز کا علاج کرنے والی ڈاکٹر نائمہ نے بتایا کہ اسرا کو (ہاجکنز لمفوما) ہے جو کہ غدود کا ایک کینسر ہے اور جسم میں موجود مختلف غدود میں شروع ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے جسم کے مختلف حصوں جیسے گردن، پیٹ، سینہ یا پھر جسم کے باقی حصوں کے غدود پھیلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ بیماری دوسری کئی بیماریوں سے ملتی جلتی سے اس لیے اس کی تشخیص میں بہت وقت لگ جاتا ہے۔

ڈاکٹر نائمہ کا کہنا تھا کہ اسرا کے جیسے بچے بہت کم ہوتے ہیں عموماً کینسر کی تشخیص ہونے میں چند ہفتے یا زیادہ سے زیادہ ایک ماہ لگتا ہے لیکن اسرا کے معاملے میں پورے چھ ماہ لگ گئے تھے۔ ابتداء میں ان کے پھیپھڑوں میں ایک بہت بڑے سوراخ کی تشخیص ہوئی تھی جس کی وجہ سے ڈاکٹروں کو لگتا تھا کہ انہیں ٹی بی کا مرض ہے لیکن سارے علاج کے ناکام ہونے کے بعد مختلف بائی آپسیز کرنے پر یہ سامنے آیا کہ اسرا کو ہاجکنز لمفوما ہے۔

Image Source: Screengrab

جب اسرا کو یہ معلوم ہوا کہ انہیں (ہاجکنز لمفوما) ہے جو کہ غدود کا کینسر ہے تو انہوں نے سکون کا سانس لیا اور کہا “الحمدللہ” اسرا کا کہنا ہے کہ میرے لیے وہ اصل خوشی کا دن تھا جب مجھے معلوم ہوا تھا کہ مجھے کینسر ہے کیوں کہ ایک لمبا عرصہ میں نے ایک ایسی بیماری سے لڑتے ہوئے گزارا جس کا مجھے علم ہی نہیں تھا اور ہر انسان کا بنیادی حق ہے کہ اسے یہ معلوم ہو کہ وہ کس تکلیف میں مبتلا ہے۔ اسرا بتاتی ہیں کہ بیماری کے اس تشخیصی عمل کے دوران وہ اتنا بیمار ہوگئیں تھیں کہ ان کا وزن 35 کلو ہو گیا تھا اور وہ خود اپنا وزن اٹھانے کے قابل بھی نہیں رہیں تھیں اور ہر جگہ وہیل چیئر کے سہارے جاتی تھیں۔

اسرا زاہد کو لاحق کینسر کے بارے میں ڈاکٹر نائمہ کا کہنا ہے کہ یہ ایک قابل علاج کینسر ہے بلکہ اس کا علاج صرف چھ ماہ میں بھی ممکن ہے مگر اسرا کے معاملے میں کینسر کا علاج کیمو تھیراپی بھی ناکام ہوگیا ہے۔لیکن اس مشکل صورتحال میں اسرا کے ساتھ ساتھ نہ تو اس کے گھر والوں نے اور نہ ہی ڈاکٹرز نے ہار مانی اور ہم نے یہ ثابت کیا کہ اسرا جیسے غیر معمولی مرض والے مریضوں کا علاج بھی پاکستان میں ممکن ہے۔

Image Source: Screengrab

ڈاکٹرز نے اسرا کی امیونو تھیراپی کی جو کہ ایک انتہائی مہنگا علاج ہے اور اس کا ایک انجیکشن چار لاکھ روپے تک کا ہے۔ اس کے علاوہ 30 جولائی 2020 کو ان کا بون میرو ٹرانسپلاٹ کیا گیا جو حج والے دن ہوا جو اسرا نے حج کی تکبیریں سنتے ہوئے کروایا۔

کینسر سے لڑنے والی اسرا زاہد کی حالت اب پہلے سے کہیں بہتر ہے لیکن ان کی امیونو تھیراپی کا علاج اب بھی جاری ہے جبکہ حال ہی میں انہوں نے اپنی یونیورسٹی کے آخری سال کے امتحانات بھی دئیے ہیں۔

اسرا زاہد کی طرح کراچی سے تعلق رکھنے والے عمیر شفیق بھی ایسے ہی نوجوان ہیں جنہیں پچھلے 20 سالوں سےگردوں کی دائمی بیماری لاحق ہے۔ لیکن وہ ہر روز زندگی وموت کی کشمکش میں ناصرف گھر سے بلکہ اسپتال سے بھی اپنے لیپ ٹاپ کے ذریعے فری لانسنگ کام کرتے ہیں۔عمیر شفیق کی اس بیماری کا آغاز اس وقت ہوا جب وہ صرف 4 سال کے تھے اور اب بیس سالوں کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی وہ اس بیماری میں مبتلا ہیں۔

Story Courtesy: Independent Urdu


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *