دلہنوں کو عروسی ملبوسات عطیہ کرنے والا انوکھا ‘ڈریس بینک’ توجہ کا مرکز


0

آپ نے فوڈ بینک، بُک بینک اور ٹوائے بینک کے بارے میں سنا ہوگا۔ لیکن کیا آپ نے کسی “ڈریس بینک“ کے بارے میں سنا ہے؟ ہندوستان کی جنوبی ریاست کیرالہ کے ضلع ملاپورم کے گاؤں میں مقیم 44 سالہ ٹیکسی ڈرائیور نصر تھوتھا اس انوکھے آئیڈئیے پر کام کررہے ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ اب تک 260 سے زیادہ دلہنوں کی ان کی زندگی کے اہم ترین دن کے لیے مفت “عروسی جوڑے “مہیا کرکے ان کے اس دن کو خوبصورت بنا چکے ہیں۔

ڈریس بینک کیا ہے؟

الجزیرہ نے ڈریس بینک کے بانی نصر تھوتھا سے بات چیت کا اہتمام کیا۔ ان کے مطابق 2020 میں اپریل کے مہینے میں انہوں نے تجرباتی بنیادوں پر اپنے گھر کے ایک کمرے سے ’’ڈریس بینک‘‘ کا آغاز کیا۔ پھر واٹس ایپ اور فیس بک کے ذریعے انہوں نے لوگوں سے درخواست کی کہ وہ اپنے عروسی ملبوسات انہیں دیں تاکہ کوئی اور ان کو اپنی شادی کے دن استعمال کرسکے۔ اس کام کو فروغ دینے کے لئے ان کے ایک دوست نے انہیں دکان لیکر دیدی۔ ڈریس بینک کے شروع ہوتے ہی اس کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور پھر خود بخود ان کی دکان پر عروسی ملبوسات کے درجنوں پیکٹ آنا شروع ہوگئے ان میں سے کئی پر تو بھیجنے والے اپنا نام بھی نہیں لکھتے۔

Image Source: Al Jazeera

اس حوالے سے نصر تھوتھا نے انٹرویو میں کہا کہ شادی کے ملبوسات چند گھنٹوں کے لیے پہنے جاتے ہیں اور پھر الماریوں میں رکھ دئیے جاتے ہیں۔ اس بات کا احساس کرتے ہوئے بہت سے خاندان بھی اس مقصد میں ہمارا ساتھ دینے کے لئے شامل ہوگئے ہیں۔

ڈریس بینک کیسے کام کرتا ہے؟

Image Source: Al Jazeera

نصر نے بتایا کہ دلہن کے اہل خانہ فیس بک کے ذریعے ان سے رابطہ کرکے اپنی پسند کا لباس منتخب کرتے ہیں پھر براہ راست ڈریس بینک سے عروسی جوڑا لیجاتے ہیں چاہے اس کی قیمت جتنی بھی ہو۔ اگر کسی خاندان کے پاس ان کے ڈریس بینک تک آنے کے لئے کرایہ کے پیسے نہیں ہوتے یا اگر کوئی ممبر بیمار ہوتا ہے، تو ہمارے رضاکار خود انہیں ڈریس پہنچا دیتے ہیں۔ نصر تھوتھا نے کہا کہ وہ کبھی بھی اہل خانہ سے عروسی جوڑا واپس کرنے کو نہیں کہتے لیکن وہ اس بات کی حوصلہ افزائی ضرور کرتے ہیں کہ وہ انہیں کسی دوسرے ضرورت مندوں تک پہنچا دیں۔

Image Source: Al Jazeera

یہ عطیہ شدہ کپڑے کیرالہ کے مختلف مقامات سے خیراتی تنظیموں اور دوستوں کے ذریعے جمع کیے جاتے ہیں۔ ڈرائی کلیننگ کے بعد، انہیں ایئر ٹائیٹ پیکٹوں میں لپیٹ کر ریک میں رکھا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خدا کے فضل سے، مجھے ذاتی طور پر ڈریس بینک چلانے میں کوئی پیسہ لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں صرف ایک ذریعہ ہوں جس کے تحت یہ کپڑے ان خواتین تک پہنچ جاتے ہیں جن کو اس کی سب سے زیادہ ضرروت ہوتی ہے۔

مزید پڑھیں: طالبات کو مفت رکشہ سروسز فراہم کرنے والا “بھائی جان

ڈریس بینک کا یہ اقدام اس قدر کامیاب رہا ہے کہ اس وقت بینک کے پاس 800 سے زیادہ کپڑے اسٹاک میں ہیں۔ ان کی قیمت 5,000 سے لے کر 50,000 روپے (ڈالر 66-660) تک ہے جبکہ مسلمان، عیسائی ، ہندو غرض ہر مذہب سے تعلق رکھنے والی دلہنیں ان جوڑوں کو پہن سکتی ہیں۔ اس آئیڈئیے کو کافی پسند کیا جا رہا ہے جبھی وقت کے ساتھ ساتھ نہ صرف کیرالہ بلکہ پڑوسی ریاستوں کے ساتھ ساتھ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں غیر مقیم ہندوستانی (این آر آئی) کمیونٹی سے بھی چندہ آنا شروع ہو گیا ہے۔

مزید براں ، ڈریس بینک کے بانی نصر تھوتھا ٹیکسی چلانے کے ساتھ ایک ایمبولینس سروس بھی چلاتے ہیں جس میں وہ ان لوگوں کو مفت سروس فراہم کرتے ہیں جو کرایہ ادا نہیں کرسکتے۔

Story Courtesy: Al Jazeera


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *