عثمان کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا۔اس کے ماں باپ محنت مزدوری کر کے اپنا اور عثمان کا پیٹ پالتے تھے۔وہ انکی اکلوتی اولاد تھی۔انکو عثمان سے بے پناہ محبت تھی۔انھوں نے دن رات محنت کر کے اسے ایک اچھے اسکول میں داخل کروایا تھا۔انھیں عثمان سے بہت سی امیدیں وابستہ تھیں۔اسکی ماں اسے روز رات کو مختلف کہانیاں سناتی جن میں ایمانداری کا سبق ہوتا تھا۔عثمان خوب محنت کرتا اور دل لگا پڑھتا ۔ایک دن عثمان کی جماعت میں ایک نئے طالب علم کا اضافہ ہوا۔اس کا نام احمد تھا۔احمد ایک شوخ مزاج لڑکا تھا۔اس نے عثمان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تو عثمان نے یہ دعوت بخوشی قبول کر لی۔احمد اور عثمان اچھے دوست بن گئے۔وہ دونوں خوب کھیلتے اور بہت سی باتیں کرتے۔ ایک دن آدھی چھٹّی کے وقت عثمان نے احمد کواپنے ہم جماعت کے بستے سے قلم چوری کرتے ہوۓ دیکھا۔ عثمان کو یہ بات بہت بری لگی اور اسنے احمد کو یہ کام کرنے سے روکاپر احمد نہ مانا۔اگلے دن عثمان نے احمد سے کہا :
“احمد یار چوری کرنا بہت بری بات ہے۔ تم نے ایسا کیوں کیا؟”
”دیکھو یار مجھے قلم کی ضرورت تھی۔تم تو جانتے ہو گئے کےہم دونوں کے مالی حالات ٹھیک نہیں ہیں۔میں نے تو صرف امی ابّا کو ایک نئے خرچے سے بچایا ہے۔میرا مشورہ تو یہ ہے کے تم بھی یہی کرو۔ایسے تمھارے گھر والوں کی بھی مدد ہو جایا کرے گی۔” احمد نے جواب دیا۔
مزید پڑھیں: شرارت کا نتیجہ
عثمان یہ سن کر سوچ میں پڑ گیا۔اپنی ان ہی باتوں سے احمد نے عثمان کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا۔اب عثمان بھی چھوٹی موٹی چوریاں کرنے لگا۔ وقت گزرتا گیا۔ عثمان کو چوری کی ایسی لت لگی کے وہ اب لوٹ مار بھی کرنے لگا۔اس کا دل پڑھا ئی سے اچاٹ ہو گیااور اس نے اور احمد نےنویں جماعت میں پڑھائی کو خیر باد کہہ دیا۔عثمان کے ماں باپ نے اسے بہت سمجھایا پر وہ نا مانتا۔ دونوں مل کرگھروں میں ڈاکے بھی مارنے لگے۔ ایک دن انہوں نےایک مشہور شخصیت کے گھر ڈاکاڈالااور بہت سا قیمتی ساز و سامان اور نقد رقم لوٹ کر فرار ہو گے۔ اس بار وہ قانون کے شکنجے سے نہ بچ سکے اور انھیں گرفتار کر لیا گیا اور دو سال قید کی سزا سنا ئی گئی۔ عثمان کو اپنے کیٔےپر بہت شرمندگی محسوس ہوتی تھی ۔ اسنے سچے دل سے توبہ کی اور قید سے نکلنے کے بعد عزّت سے کمانے کا ارادہ کیا۔آخر کار یہ وقت بھی کٹ گیا دونو ں جیل سے باہر آگئے۔عثمان نے اپنے لیے روزگار کی تلاش شروع کر دی اور آخرکار بہت محنت کے بعد اسے مزدور کے طور پر ایک زیر تعمیر عمارت میں کام مل گیا۔ وہ بہت محنت سے کام کرتا ۔آمدنی کم تھی پر حلال کی کما ئی پر ا للہ کا شکر ادا کرتا۔ ادھر احمد دوبارہ کسی بڑے ڈاکے کی وجہ سے پولیس کے نشانے پر تھا۔ اس نے پکڑے جانے کے خوف سے چوری شدہ سامان ایک زیر تعمیر عمارت میں چھپا دیا۔اتفاق سے یہ وہی عمارت تھی جس میں عثمان کام کرتا تھا۔ ایک جگہ پر کھدا ئی کے دوران عثمان کو تمام چوری شدہ مال ملا۔ اسکے ساتھیوں نے مشورہ دیا کے کیوں نہ اس سامان کو آپس میں بانٹ دیا جاۓ۔عثمان کے ضمیر نے اس بات کی اجازت نہ دی کیونکہ وہ ہر طرح کے غلط کام سے توبہ کر چکا تھا۔ اس نے فوراً پو لیس کو اطلاع دی۔ پولیس نے سامان پر لگےانگلیوں کے نشانات کی مدد سے احمد کو ڈھونڈ نکالا اور اسے اپنی لالچ کی وجہ سے ایک بار پھر جیل کی ہوا کھانی پڑی۔ عثمان کو اسکی ایمانداری کا یہ صلہ ملا کہ حکومت کی جانب سے اسے انعام سے نوازہ گیا۔عثمان اپنی ماں کی سنا ئی گئی کہا نیوں میں موجود ایمانداری کے سبق کو نہیں بھولا تھا۔
سچ ہے کہ اگر سچے دل سے توبہ کی جاۓ تو اجر ضرور ملتا ہے اور ایمانداری کا صلہ ضرور ملتا ہے۔
0 Comments