عیدی لینے والے ہوجائیں ہوشیار


0

عید کے لغوی معنی خوشی کے ہیں۔ جبکہ امت مسلمہ مذہبی اعتبار سے دو خوشیوں کے تہوار مناتی ہے۔ جن میں عیدالفطر اور عیدالاضحی شامل ہے۔ عیدالاضحی کو عمومی طور پر بڑی عید یا بکرا عید بھی کہا جاتا ہے۔ یہ عید ہر سال مسلمان الحجہ مہنے کی دس تاریخ کو مناتے ہیں۔ اس عید میں دنیا بھر کے مسلمان سنت ابراہیمی ادا کرتے ہوئے جانوروں کی قربانی کرتے ہیں، جن میں بکرا، گائے اور اونٹ شامل ہے۔ اور قربانی کا گوشت تین حصوں میں کرکے تقسیم کردیا جاتا ہے۔

البتہ دوسرا خوشی کا تہوار عیدالفطر ہے جس عموماً میٹھی عید بھی کہا جاتا ہے۔ یہ عید ہر سال دنیا بھر کے مسلمان یکم یعنی کے پہلی شوال کو مناتے ہیں۔ یہ عید اللہ سبحانہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کو رمضان المبارک کے 30 روزے رکھنے پر ملی ہے. یہاں یہ بات جاننا ضروری ہے کہ رمضان المبارک کے روزے ہر مسلمان پر رکھنا فرض ہے اگر کسی بھی مسلمان سے کسی بھی وجہ سے یہ روزے چھوٹ جائے تو ان کو عید کے بعد یہ چھوٹ جانے والے تمام روزے رکھنا ضروری ہے، اگر کوئی شخص بیمار ہے اور روزے رکھنے کی طاقت رکھتا تو اس کو پھر روزوں کے بجائے فدیہ ادا کرنا ہوگا۔

جبکہ دوسری جانب عید الفطر پر امت مسلمہ عید کے نماز پڑھنے کے بعد اپنے آس پڑوس اور اپنے عزیز و اقارب عید ملتے ہیں اور عید کی مبارک باد ایک دوسرے کو دیتے ہیں۔ اگرچہ کچھ لوگ عید کے دن اپنے پیارے عزیزوں کی قبروں پر بھی جاتے ہیں۔ جبکہ خواتین عید کے روز گھروں پر مزے دار اور لزیز پکوان بھی بناتی ہیں۔ رشتہ دار ایک دوسرے کے گھروں پر ملنے جلنے بھی جاتے ہیں اور خوشیاں باٹھتے ہیں۔ اگرچہ اس عید کی سب سے مختلف چیز جو شاید بکرا عید پر نہیں ہوتی وہ ہے کہ گھروں کے بڑے اور رشتہ دار بچوں اور اپنے تمام چھوٹوں کو عید دیتے ہیں۔ یہ سب منفرد چیز ہوتی ہے، بچے اس کو لیکر سب سے زیادہ انتظار مند ہوتے تاکہ وہ عیدی کے پیسے جمع کرکے اپنی پسند کی چیزیں لے سکیں اور مزے کرسکیں۔

البتہ اس بار عید الفطر کے دوران دنیا بھر میں کورونا وائرس ہے۔ پورا ملک لاک ڈاؤن کی لپیٹ میں ہے۔ شاید یہ عید روایتی عیدوں سے مختلف ہو۔ دنیا بھر میں حکومتں اپنے شہریوں سے سادگی کے ساتھ عید منانے کی تلقین کررہی ہیں۔

لہذا عیدی جمع کرنے والوں اور دینے والوں کو بھی اعتبار کرنا ہوگا۔ وجہ کیوں؟

کیا عیدی لینے سے بھی کورونا وائرس آسکتا ہے ؟ اس ہی سلسلے میں ہم نے ڈاکٹر صدف اکبر سے رابطہ کیا جو کراچی کے ایک نجی اسپتال میں مائیکرو بائیولوجسٹ اور انفیکشن کنٹرول مینیجر کے فرائض سر انجام دے رہیں ہیں۔ انہوں نے پڑھلو کی ٹیم سے خصوصی بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس بار عید پر عیدی لینے پر بھی احتیاط کرنی ہوگی۔ کورونا وائرس ایک ایسا وائرس ہے جو ایک انسان سے دوسرے انسان منتقل ہوتا ہے اور اب اس بات علم اب سب کو ہی ہے کہ کورونا وائرس کے اثرات فورا نہیں نمایا ہوتے ہیں ۔ اگر ایک شخص کو کورونا وائرس ہے اور اس کو اس بات کو علم نہیں ہے تو یہ ایک خطرناک بات ہے۔ کیونکہ وہ نوٹ یقینی طور پر آپ کو اپنے ہاتھ سے دے گا ۔ عین ممکن ہے وہ آپ کو عیدی کیے ساتھ کورونا وائرس بھی منتقل کردے۔ لہذا اس عید پر سخت احتیاط کی ضرورت ہے۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں لوگ بچوں کو عید دیتے ہیں، چھوٹے بچے وہ نوٹ اپنے چہرے پر لگا لیتے ہیں، یا وہ ہاتھ منہ یا چہرے پر لگا لیتے ہیں اور جس سے کورونا وائرس منتقل ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ یاد رہے چھوٹے بچوں کا امیون سسٹم کافی کمزور ہوتا ہے لہذا یہ چیز خطرے بلکل خالی نہیں ہے۔ یہ عید ہماری آخری عید نہیں ہے انشاءاللہ ہم اگلے سال پہلے کی طرح عید منائیں گے۔ شاید اور بھی بہترین انداز میں منائیں لہذا اس عید پر احتیاط ضروری ہے۔ اس عید پر لوگوں سے میل جول سے اجتناب کریں۔ گھروں پر دعوتوں و ملاقاتوں سے گریز کریں۔ البتہ آپ کے گھر اگر مہمان آجائیں تو آپ احتیاطی تدابیر کو ضرور اپنائیں۔ ٹی وی کا ریمورٹ، موبائل فون اور تولیہ وغیرہ کا استعمال آپس میں نہ کریں۔ گھروں کے صوفے، برتن وغیرہ سے بھی وائرس منتقل ہوسکتا ہے۔ ہاتھوں کو بار بار پانی اور صابن سے دھوئیں یا پھر سینی ٹائزر کا استعمال کرے۔

اگرچہ عید پر 3 بار گلے ملنا بھی مسلمان کی ایک روایت تصور کی جاتی ہے۔ عید پر کچھ ہو یا نا ہو البتہ ایک دوسرے کو عید کی مبارک باد گلے لگ کر ہی دی جاتی ہے۔ یاد رہے اس بار گلے ملنا بھی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ اس چیز میں بھی ہمیں خیال اور احتیاط کرنے کی ضرورت ہے کہ سوشل ڈسٹینسنگ عید پر ضرور قائم رہے

ان تمام چیزوں کو دیکھتے ہوئے ہمیں اس بار یہ عمل کرنے اور سوچنے کی ضرورت ہے کہ بلاوجہ اہنے گھروں سے باہر جانا ہمارے اور ہمارے گھر والوں کے لئے سودمند نہیں ہے۔

پڑھلو کا ہے پیغام اس بار عید اپنوں میں اپنوں کے لئے۔ کیونکہ جان ہے تو پھر ہی جہان ہے۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *