سوویت یونین کے ماہرین کی ایک ٹیم قدرتی گیس کی کھوج میں تھی، اور انہی کوششوں کے دوران ایک حیرت انگیز حادثہ ہوا۔
اس حادثے کے نتیجے میں “دروازہ” نامی گیس کا کنواں بنا، جو آج ترکمانستان کا سب سے مشہور سیاحتی مقام بن چکا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا آگ کے شعلوں سے بھرا سوراخ ہے، جو بتدریج سیاحوں کے لیے ایک دلچسپ مقام بن گیا ہے۔ اسے ‘جہنم کا دروازہ’ اور ‘قراقرم کی چمک’ کے ناموں سے بھی جانا جاتا ہے۔
Door of Hell
یہ ایک بہت بڑا آگ کے شعلوں سے بھرا سوراخ ہے جو بتدریج ترکمانستان کی سیاحت کرنے والوں کا سب سے پسندیدہ مقام بن گیا۔
گڑھے کا حدود کا اربع
یہ گڑھا 70 میٹر چوڑا اور 30 میٹر گہرا ہے، اور 2018 میں اس کے اردگرد حفاظتی باڑ لگائی گئی تھی تاکہ سیاح دہکتی آگ کے بہت زیادہ قریب نہ جا سکیں۔ مگر، ‘جہنم کا دروازہ’ شاید بہت زیادہ عرصے تک اسی شکل میں موجود نہ رہے، کیونکہ ترکمانستان کی حکومت نے گیس کے ذخائر کو بچانے کے لیے متعدد بار مختلف منصوبوں پر غور کیا ہے، مگر ابھی تک کوئی عملی اقدام نہیں کیا گیا۔
:یہ بھی پڑھیں
کیا آپ کی آنکھوں کے نیچے بھی سیاہ حلقے ہیں؟
گڑھے کے بارے میں کہانیاں
کوئی بھی یقین سے نہیں بتا سکتا کہ یہ گیس کا گڑھا کب ظاہر ہوا، کیونکہ سوویت عہد کی رپورٹس غائب ہیں یا ان تک رسائی ممکن نہیں۔ کینیڈین مہم جو، ، جنہوں نے اس گڑھے کے اندر جا کر کھوج کی، نے بتایا کہ اس کے وجود میں آنے کے بارے میں متعدد کہانیاں موجود ہیں، اور کوئی بھی بات مکمل یقین کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی۔
ایک عام خیال یہ ہے کہ یہ گڑھا 1971 میں بنا اور اس کے بعد آگ بھڑکنے لگی، جبکہ کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ 1960 کی دہائی میں کسی وقت بنا اور 1980 کی دہائی میں آگ بھڑکنا شروع ہوئی۔ کچھ افراد کا خیال ہے کہ آگ بھڑکنے کی وجہ دستی بم یا ماچس کی تیلی تھی، جبکہ مقامی گائیڈ کے مطابق، یہاں کے ایک گاؤں والوں نے گیس کی بو سے بچنے یا صحت کے نقصانات سے بچنے کے لیے گڑھے میں آگ بھڑکائی تھی، اور انہیں لگتا تھا کہ یہ گیس چند ہفتوں میں جل کر ختم ہو جائے گی۔
دوسری جانب برسوں سے اس جگہ پر آنے والوں کا کہنا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں اب یہاں کے شعلے کافی چھوٹے ہوچکے ہیں۔
مقامی گائیڈ نے اس حوالے سے ایک اور خیال پیش کیا۔
اس نے بتایا کہ ‘اس زمانے میں یہاں قریب ایک گاؤں ہوتا تھا اور میں نے سنا ہے کہ انہوں نے گڑھے میں آگ بھڑکائی کیونکہ وہ گیس کی بو سے بچنا چاہتے تھے یا انہیں لگتا تھا کہ زہریلی گیس وہاں رہنے والوں کی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے، ان کا خیال تھا کہ یہ گیس چند ہفتوں میں جل کر ختم ہو جائے گی’۔
اس گڑھے کی تہہ اور دیواروں سے خارج ہونے والی گیس اس آگ کو دہائیوں سے روشن رکھے ہوئے ہے، اور اس کے قریب جانے پر بہت زیادہ حرارت محسوس ہوتی ہے۔ رات کے وقت اس کا نظارہ خاص طور پر ڈرامائی اور دنگ کر دینے والا ہوتا ہے۔
ایک مقامی گائیڈ کے مطابق وہ 40 برسوں سے یہاں آ رہا ہے اور گزشتہ 7 برسوں کے دوران آگ کے شعلوں کی شدت میں مسلسل کمی آئی ہے۔
سیاحوں کے لئے سہولت
ابتدائی دور میں، یہاں سیاحوں کے لیے کوئی سہولت دستیاب نہیں تھی، اور انہیں تمام ضروری سامان خود ساتھ لے جانا پڑتا تھا۔ مگر اب یہاں تین کیمپس موجود ہیں جہاں خیموں میں قیام کیا جا سکتا ہے، کھانے پینے کی اشیا مل جاتی ہیں، اور معذور افراد کے لیے گڑھے تک جانے کے لیے ٹرانسپورٹ بھی دستیاب ہے۔
0 Comments