برمودا ٹرائی اینگل کی حقیقت سے جُڑے چند اہم راز


0

برمودا ٹرائی اینگل کی حقیقت کیا ہے؟ کیا یہاں مارس سے کوئی یو ایف او آتا ہے؟ یہاں اتنے زیادہ جہاز کیوں ڈوبتے ہیں؟ بحری جہاز اور ہوائی جہاز بھی؟ آخر کیا ہے سمندر کے اس چھوٹے سے حصے میں جو ساری دنیا کو حیرت میں مبتلا کیے ہوئے ہے؟ برمودا ٹرائی اینگل کی حقیقت کے حوالے سے حیران کن بات یہ ہے کہ اس تکون کا رقبہ باضابطہ طور پر واضح نہیں کیا گیا مگر ایسا مانا جاتا ہے کہ یہ 5 لاکھ اسکوائر میل پر برمودا، فلوریڈا اور پیورٹو ریکو کے درمیان پھیلا ہوا ہے۔

ایسا کہا جاتا ہے کہ برمودا ٹرائی اینگل میں 50 سے زائد بحری جہاز جبکہ 20 طیارے یہاں غائب ہوچکے ہیں، جن کا ملبہ یا سراغ نہیں مل سکا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ برمودا ٹرائی اینگل دنیا کے جس خطے میں واقع ہے یہ بحری جہازوں کی سب سے زیادہ آمدورفت والے علاقوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، جہاں سے امریکہ اور یورپ اور آنے جانے والے سینکڑوں جہاز روزانہ گزرتے ہیں۔

Bermuda Triangle Ki Haqeeqat

(Bermuda Triangle Ki Haqeeqat)

برمودا ٹرائی اینگل کی حقیقت

برمودہ ٹرائی اینگل کو شہرت کیسے ملی؟

اس خطے میں بحری جہازوں کے غائب ہونے واقعات کی کہانیاں 19 ویں صدی کے وسط میں پھیلنا شروع ہوئیں جبکہ کچھ جہازوں کو مکمل طور پر خالی دریافت کیا گیا جس کی وجہ سامنے نہیں آسکی۔مگر اس کو شہرت دسمبر 1945 میں اس وقت ملی جب امریکی بحریہ کی فلائٹ 19 جو کہ 5 یو تارپیڈو بمبارطیاروں پر مشتمل تھی، اٹلانٹک میں معمول کے مشن پر نکلی اور غائب ہوگئی، طیاروں کا ملبی یا عملے کے 14 ارکان کے بارے میں کچھ علم نہیں ہوسکا۔لوگوں کے تجسس میں مزید اس وقت اضافہ ہوا جب یہ رپورٹس سامنے آئی کہ اس فلائٹ مشن کو ڈھونڈنے والے طیاروں میں سے ایک بھی غائب ہوگیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکا بحریہ کا یو ایس ایس سائیکلوپ بھی اس خطے میں 1918 میں گم ہوگیا تھا جس کا سراغ نہیں ملا، مگر اس وقت لوگوں نے زیادہ توجہ نہیں دی تھی، حالانکہ اس کے ساتھ 300 افراد بھی غائب ہوگئے تھے۔اس کے بعد مضامین اور کتابیں جیسے چارلس برلیٹز کی 1974 میں شائع کتاب دی برمودا ٹرائی اینگل نے اس خطے کو دنیا بھر میں شہرت دلا دی، اس کتاب کی 30 زبانوں میں 2 کروڑ کاپیاں فروخت ہوئیں اور اس معمے کو زندہ رکھنے میں کامیاب رہی۔

سائنسی تحقیقات کیا بتاتی ہیں؟

گزشتہ برسوں میں سائنسدانوں نے برمودا ٹرائی اینگل کے بارے میں توہمات کو ختم کرنے کی متعدد کوششیں کیں اور بحری و فضائی جہازوں کے غائب ہونے پر مختلف خیالات پیش کیے ہیں۔سال 2019 میں ناروے کی آرکٹک یونیورسٹی نے خیال پیش کیا تھا کہ سمندری تہہ میں موجود میتھین یا قدرتی گیس کی موجودگی اس معمے کے پیچھے ہوسکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس گیس کا اچانک اخراج جہازوں کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے اور اس کے باعث ہی طیارے اور جہاز غائب ہوجاتے ہیں، کیونکہ یہ گیس ہوا میں داخل ہوکر طوفانی کیفیت پیدا کرسکتی ہے جس سے طیارے گرجاتے ہیں۔

سال 2018 میں برطانیہ کے سائنسدانوں نے خیال ظاہر کیا تھا کہ اس سمندری تکون کا راز وہاں کی 100 فٹ بلند تیز لہروں میں چھپا ہے۔تحقیقی ٹیم کا ماننا تھا کہ برمودا ٹرائی اینگل کے اسرار کی وضاحت تند و تیز لہروں سے ممکن ہے۔محققین نے اس مقصد کے لیے طوفانی لہروں کو لیبارٹری میں بنایا جو کہ بہت طاقتور اور خطرناک تھی، جبکہ ان کی اونچائی 100 فٹ تک تھی۔اس قسم کی لہروں کو سائنسدان اکثر شدید طوفانی لہریں قرار دیتے ہیں۔تحقیقی ٹیم نے ایک بحری جہاز یو ایس ایس سائیکلوپ کا ماڈل تیار کیا تھا،542 فٹ کے اس جہاز کا ملبہ کبھی نہیں مل سکا اور نہ ہی عملے اور مسافروں کے بارے میں کچھ معلوم ہوسکا۔

تحقیقی ٹیم کے مطابق اس تکون میں 3 مختلف اطراف سے شدید طوفان آسکتے ہیں جو کہ کسی بہت بڑی لہر کو بنانے کے لیے بہترین ماحول فراہم کرتا ہے۔ان کا ماننا ہے کہ اس طرح کی لہر کسی بڑے بحری جہاز کو بھی ڈبو سکتی ہے، جیسا لیبارٹری میں آزمائش کے دوران اس کی کامیاب آزمائش بھی کی گئی۔

مزید پڑھیں: دنیا کی سات خوبصورت جگہیں کونسی ہیں؟

مگر کسی بھی تحقیق میں اب تک اس سوال کا جواب سامنے نہیں آسکا کہ اگر بادل یا لہر جہازوں اور طیاروں کی تباہی کا باعث بنتے ہیں تو ان کا ملبہ کہاں جاتا ہے، کیونکہ ایک غیرمصدقہ رپورٹ کے مطابق ہر سال اس خطے میں اوسطاً چار طیارے اور 20 بحری جہاز گم ہوجاتے ہیں۔


Like it? Share with your friends!

0
Zameer Ali

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *