کوئٹہ کے نوجوان عزت اللہ کو بلوچستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے شعبے میں اپنی انتھک محنت پر خدمت انسانی کے سب سے بڑے اعزاز یعنی ‘ڈیانا ایوارڈ’ سے نوازا گیا ہے۔وہ بلوچستان کے واحد نوجوان ہیں، جنہوں نے ڈیانا ایوارڈ حاصل کیا ہے۔ عزت اللہ جو کہ سماجی کارکن اور بہترین مقرر بھی ہیں کا کہنا ہے کہ یہ ایوارڈ دنیا کے بڑے ایوارڈز میں سے ایک ہے اور یہ ایوارڈ ان نوجوانوں کو دیا جاتا ہے، جنہوں نے معاشرے میں ان لوگوں کی خدمت کی ہو جو مستحق ہیں۔
عزت اللہ نے 2017 میں چراغ ایجوکیشنل سوسائٹی کی بنیاد رکھی تو اس میں سرفہرست بچیوں کی تعلیم تھی۔جس کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے اور وہ ایک ٹیم کے ذریعے یہ فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ بلوچستان ایک پسماندہ علاقہ ہے اور یہاں پر سب سے کم شرح خواندگی بچیوں کی ہے جو کہ صرف 27 فیصد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے دنیا بھر میں بچیوں کی تعلیم کے حوالے سے سب سے پسماندہ صوبہ قرار دیا جاتا ہے۔
اس حوالے سے عزت اللہ نے بتایا کہ ان کے لئے یہ کام آسان نہیں تھا، ایک تو بلوچستان میں قبائلی نظام ہے اور یہاں کے لوگ بچیوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ دوسری جانب ان کو تعلیم کے لیے قائل کرنا ایک مشکل مرحلہ تھا ،اس لئے یہ راستہ بہت کٹھن تھا لیکن ہم نے ہمت نہیں ہاری اور چلتے رہے اور آج ہم فخر کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ تین ہزار بچیوں کو ہم نے اسکولوں میں داخل کروایا اور ان کو تعلیم دلوارہے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے بھی جب کورونا وباء کچھ کم ہوئی تھی اور اسکول کھل گئے تھے تو انہوں نے ”بیک ٹو اسکول“ کے نام سے ایک مہم بھی شروع کی تھی، جس کے تحت انہوں نے دو سو افغان مہاجر بچیوں کو اسکولوں میں داخل کروایا۔ وہ نہ صرف افغان بلکہ مقامی پٹھان اور بلوچ بچیوں کو بھی اسکولوں میں داخل کرواتے ہیں کیونکہ ان کی کوشش ہے کہ کمیونٹی کے ہر طبقے کو ساتھ لے کر چلیں۔ عزت اللہ کی خواہش ہے کہ بلوچستان میں شرح خواندگی میں اضافہ ہو اس لئے وہ اپنے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
مزید پڑھیں: ملکہ برطانیہ نے کیا پاکستانیوں کی خدمات کا اعتراف، پاکستانیوں کے سر فخر سے بلند
خیال رہے کہ برطانیہ کا باوقار ایوراڈ “دی ڈیانا ایوارڈ” شہزادی لیڈی ڈیانا کی یاد میں قائم ہوا جس کے تحت سیکڑوں افراد کو یہ ایوارڈ مختلف کیٹگریز میں دیا جاتا ہے۔ اس ایوارڈ کا بنیادی مقصد نئی نسل کی جانب سے تعلیم اور بچوں میں شعور اُجاگر کرنے والے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔
اس سے قبل بھی پاکستان کی عائشہ شیخ کو کورونا وائرس کے دوران تعلیم اور فنڈ ریزنگ پر اس ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ صوبہ سندھ کے ضلع سکھر سے تعلق رکھنے والی عائشہ شیخ نے کورونا کی وبا کے دنوں میں تقریباً 500 خاندانوں کو راشن مہیا کیا۔ تاہم ان کی اس امداد کا طریقہ کافی مختلف تھا کیوں کہ انہوں نے امداد کے ساتھ ان لوگوں کو کچھ ہنر بھی سکھایا تاکہ آئندہ ماہ سے وہ کسی کی محتاجی کے بغیر خود کما سکیں۔ فنڈریزنگ کے دوران انہوں نے انسانیت کی خدمت کو ترجیح دی ،اپنی فیملی سے دوررہ کر وہ دوسروں کے لئے فنڈ اکٹھا کرتی رہیں۔
کراچی،14 اپریل 2025: پاکستان میں نفسیاتی تجزیاتی سوچ کو فروغ دینے کی ایک پرعزم کوشش…
سوئی سدرن گیس لمیٹڈ کمپنی نے رمضان المبارک میں گھریلو صارفین کیلیے گیس کی لوڈشیڈنگ…
کراچی سمیت سندھ بھر میں اس سال نویں اور دسویں جماعت کا شیڈول تبدیل کر…
فروری سال کا وہ مہینہ ہے جو محض 28 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے اور…
پاکستان کرکٹ ٹیم کیلئے چیمپئنز ٹرافی کے اگلے راؤنڈ تک جانے کا سفر مشکل ہوچکا…