
سات دسمبر 2016 پاکستان کی تاریخ میں سیاہ دن ہے ،اس دن چترال سے اسلام آباد آنے والی پی آئی اے کی اے ٹی آر فلائٹ پی کے 661 حویلیاں کے قریب خوفناک حادثے کا شکار ہوگئی تھی۔ حادثے کا شکار ہونے والوں میں قومی ائیر لائن کے جونیئر پائلٹ احمد منصور جنجوعہ بھی شامل تھے۔
اس شہید پائلٹ کی والدہ شاہدہ جنجوعہ گزشتہ چار سال سے انصاف کی منتظر ہیں ۔ یاد رہے کہ انہوں نے متعلقہ حکام پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ ان کے بیٹے کو اڑانے کے لئے خراب جہاز دیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ سندھ ہائی کورٹ میں اے ٹی آر طیاروں کے حادثات کی رپورٹ منظر عام پر لانے سے متعلق درخواست کی منگل کو سماعت ہوئی۔ سماعت کے دوران ڈائریکٹر سول ایوی ایشن، ڈی جی پی آئی اے انجیئرنگ اور دیگر حکام عدالت میں پیش ہوئے۔
کیس کی سماعت کے دوران پائلٹ احمد منصور جنجوعہ کی والدہ شاہدہ منصور جنجوعہ کمرہ عدالت میں رو پڑیں اور انہوں نے عدالت سے کہا کہ ان سب کے خلاف کرمنل کارروائی کی جائے، میرے بیٹے کو زبردستی جہاز چلانے کا کہا گیا، میرا بیٹا چیختا رہا مگر انہوں نے کہا جہاز چلاؤ، میرا بیٹا روز کہتا تھا کہ جہاز خراب ہے، وہ کہتا تھا کہ نوکری کی مجبوری ہے جہاز اڑانا پڑ رہا ہے۔

خبر رساں ادارے انڈیپینڈنیٹ نیوز سے بات کرتے ہوئے فضائی حادثے میں جاں بحق ہونے والے قومی ائیرلائن کے فرسٹ آفیسر احمد منصور جنجوعہ کی والدہ نے بتایا کہ ان کے بیٹے ہونہار طالب علم تھے، اپنے والد کی طرح انہوں نے بھی ہوابازی کے شعبے کو کیریئر بنایا، راولپنڈی فلائنگ کلب سے پیشہ وارانہ تعلیم حاصل کی۔ اس کے علاوہ شہید پائلٹ اوور سیز فٹبال کلب کے ممبر اور اچھے فٹبالر بھی تھے۔
اپنے بیٹے کی یاد میں آبدیدہ ہو کر انہوں نے بتایا کہ میرا بیٹا احمد منصور جنجوعہ پانچ بہنوں کا اکلوتا بھائی اور گھر کا واحد کفیل تھا۔ اس نے کورس مکمل کیا لیکن پانچ سال تک نوکری نہیں ملی، ملازمت ملنے کے چار ماہ بعد یہ حادثہ پیش آیا۔

آنسوؤں کے ساتھ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس سانحے کے بعد کسی نے نہیں پوچھا کہ ہم کس حال میں ہیں کیسے گزر بسر کررہے ہیں ؟ میں چار سال سے انصاف کے حصول کے لئے عدالتوں کا چکر لگا رہی ہوں جگہ جگہ دھکے کھاتی رہی۔ مزید کہا کہ مجھے تین ماہ قبل فریکچر ہوگیا لیکن اس کے باوجود میں انصاف کے لئے عدالت گئی ہوں۔
انہوں نے اس حوالے سے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ احمد کے والد منصور جنجوعہ بھی قومی ائیرلائن کے پائلٹ تھے۔ تیرہ سال قبل فلائنگ کے دوران انہیں دل کا دورہ پڑا اور ان کی طبیعت بگڑ گئی اور لینڈنگ کے بعد بھی پی آئی اے حکام نے مدد نہیں کی اور بعد میں میرے شوہر دم توڑ گئے۔ہمیں آج تک اس واقعے کا انصاف نہیں ملا اور اب متعلقہ حکام کی غفلت کی وجہ سے میرا اکلوتا بیٹا بھی اس دنیا سے چلا گیا۔

تاہم اس کیس کی سماعت کے بعد شہید پائلٹ کی والدہ پر امید ہیں کہ عدالت انہیں انصاف فراہم کرے گی۔
خیال رہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے حویلیاں میں 2016 میں ہونے والے حادثے کی ذمہ داری سے متعلق سول ایوی ایشن اتھارٹی سے اور موجودہ اے ٹی آر طیاروں کی مینٹیننس کے حوالے سے پی آئی سے تفصیلی جواب مانگ لیے ہیں۔ گزشتہ دنوں کوسندھ ہائی کورٹ میں کیس کی سماعت ہوئی جس میں پی آئی اے اور سول ایوی ایشن کے ٹیکنیکل افسران عدالت میں اے ٹی آر حادثے کے متعلق حکام کی جانب سے رپورٹ نہ آنے پر عدالت نے متعلقہ حکام پر اظہار برہمی کیا۔ عدالت نے سول ایوی ایشن اتھارٹی اور دیگر حکام کو ہدایت کی کہ اگلی سماعت میں حادثے سمیت اے ٹی آر طیاروں پر مکمل اور جامع رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے۔
عدالت نے سماعت 17 دسمبر تک ملتوی کردی ہے۔
یاد رہے یہی وہ بدقسمت طیارہ جس میں مشہور نعت خواں جنید جمشید اور ان کی اہلیہ سمیت 48 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
Courtesy: Independent Urdu
0 Comments