کراچی کا نابینا ماہر موٹر سائیکل مکینک، جس کی ’آنکھیں نہیں ہاتھ دیکھتے ہیں’


0

معذوری اکثر لوگوں سے ان کے جینے کا احساس چھین لیتی ہے اور ان کے لئے مجبوری بن جاتی ہے ،لیکن ان ہی لوگوں میں بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی ہمت سے ہر معذوری کا مقابلہ کرتے ہیں اور معاشرے کے لئے مثال بن جاتے ہیں۔

ایسا ہی ایک نوجوان عبدالوہاب ہے جو بینائی سے محروم ہونے کے باوجود ایک ماہر مکینک کے طور پر شہر میں مشہور ہے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والا یہ نوجوان بینائی کو اپنی کمزوری سمجھے بغیر اپنے لئے روزگار کما رہے ہیں۔ یہ محنت کش نوجوان اپنا کام پوری ایمانداری اور لگن کے ساتھ کرتا ہے۔ موٹر سائیکل کی وائرنگ ، کلچ پلیٹ ، بریک شو اور پورے انجن کی تبدیلی سمیت موٹر بائیک کا کوئی ایسا کام نہیں ہے جو عبدالوہاب کے بائیں ہاتھ کا کھیل نہ ہو۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ قدرت نے جہاں ان سے آنکھوں کی بینائی لی ہے وہیں انہیں اس کام کا اتنا تجربہ دیدیا کہ ان کی ماہرانہ صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے گاہک بھی دنگ رہ جاتے ہیں۔

Image Source: Screengrab

عبدالوہاب کے مطابق 2005 میں ان کی پہلی آنکھ جبکہ 2014 میں دوسری آنکھ کاپردہ پھٹا جس سے بینائی مکمل طور پر چلی گئی۔عبدالوہاب موٹر سائیکل کی باڈی کا پورا کام کرلیتے ہیں ،انجن بھی بنالیتے ہیں۔ ان کا تجربہ اس قدر ہے کہ وہ انجن کی آواز سن کر خرابی کا پتہ لگا لیتے ہیں اور ہاتھ لگا کر موٹرسائیکل کے پرزے کا بتادیتے ہیں کہ کہاں کیا مسئلہ موجود ہے۔تعجب کی بات یہ ہے کہ اتنی محنت سے حق حلال کی روزی کمانے کے ساتھ عبدالوہاب نویں جماعت میں تعلیم بھی حاصل کررہے ہیں۔ڈاکٹرز کے مطابق عبدالوہاب کی آنکھوں کا آپریشن پاکستان میں ممکن نہیں، آسٹریلیا چلا جائے تو شاید بینائی لوٹ آئے۔

Image Source: Screengrab

بینائی سے محرومی کے باوجود عبدالوہاب اپنی زندگی سے ناامید نہیں ان کا کہنا ہے کہ شکوے شکائتیں کرنے والے اپنی زندگی سے بیزار ہوتے ہیں۔اللہ سے کیا شکوہ کرنا وہ اپنے بندوں سےتو ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والا ہے، وہ اپنے بندے کے لیے پریشان نہیں چاہے گا۔ بینائی سے محروم کراچی کے ماہر بائیک مکینک نے یہ بات ثابت کردیا کہ معذوری کوئی مجبوری نہیں ہوتی ،اگر ہمت اور حوصلہ اور ہو تو ہر کام کیا جاسکتا ہے۔

زندگی ایک مسلسل امتحان اور چیلنج ہے ۔ ہم منشائے الٰہی کے سامنے اُف تک نہیں کر سکتے ، شہر قائد کی ایک شاہراہ پر ٹائر پنکچر کا کام کرنیوالا ایک ایسا نوجوان بھی ہے جو ایک پاؤں میں پولیو کی وجہ سے چل نہیں سکتا لیکن اسٹک کی مدد سے کھڑا ہوکر گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کا پنکچر لگاتا ہے۔ علی حسن پچھلے 14 سال سے گاڑیوں کے ٹائروں میں پنکچر لگانے کا کام کررہے ہیں اور باعزت روزگار سے حق حلال کی روزی کما رہے ہیں۔

بلاشبہ عبد الوہاب اور علی حسن جیسے باہمت نوجوان سب کے لئے مثال ہیں کیونکہ ان کا حوصلہ عام لوگوں سے کئی گنا بلند ہے، اور یہ لوگ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ معذور ہونا گناہ نہیں اور نہ ہی معذوری کوئی مجبوری ہے لیکن اپنی معذوری دیکھاکر مجبور بننا غلط ہے۔

خیال رہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان کے تقریباً 13 لاکھ نابینا افراد ہماری خصوصی توجہ کے مستحق ہیں۔ بہت سے نابینا افرادہمیں مساجد کی سیڑھیوں، بسوں، گاڑیوں ، اسپتالوں ، ریلوے اسٹیشنوں اور بازاروں میں بھیک مانگتے نظر آتے ہیں، ہم انہیں خیرات دینے کو تیار ہو جاتے ہیں لیکن اُن کے ہاتھ سے کشکول چھین کر انہیں تعلیم اور ہنر دینے کی کوشش نہیں کرتے۔ انسانیت کا تقاضا ہے کہ ان نابینا افراد کو معاشرہ پر بوجھ بنانے کے بجائے انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا موقع فراہم کریں۔

STORY COURTESY: AARO


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *