خواجہ سرا رانی نے بھیک اور ڈانس چھوڑ کر اپنا مدرسہ کھول لیا


0

افسوس کے ساتھ جب بھی ہمارے سامنے لفظ خواجہ سرا کا ذکر آتا ہے، تو ہمارے ذہنوں میں ان کے ایک مخصوص خاکہ تیار ہوتا ہے، یعنی کچھ لوگ جو سڑکوں پر مختلف انداز میں بھیگ مانگتے اور ناچنے گاتے ہوئے ہیں۔ یہی نہیں ستم ظریفی کی انتہاء تو یہ ہے کہ ہمارا معاشرتی روئیہ ان کے ساتھ ہمیشہ سے غیرانسانی اور غیراخلاقی رہا ہے، شاید ہم نے انہیں کبھی اپنے جیسا انسان نہیں سمجھا اور نتيجہ پھر یہ نکلا کہ معاشرے کا یہ مظلوم طبقہ پستی سے مزید پستی کی طرف چلا گیا۔ کسی کی طرف اس جانب سوچا ہی نہیں گیا کہ اس طبقے کو علم سے روشناس کرایا جائے، ان کی بہتر تربیت کرکے انہیں معاشرے کا ایک کارآمد حصہ بنایا جاسکے۔ لیکن کہتے ہیں نہ کہ ایک مظلوم کا سب سے بڑا ہتھیار اس کی اپنی ہمت ہوتی ہے اور ایسا ہی کچھ خواجہ سرا برادری میں رانی خان میں دیکھا گیا، جس نے محض اپنا ہی نہیں اپنی پوری برادری کے لئے ایک الگ سوچ پیدا کی۔ انہوں نے اپنی کمیونٹی کے لوگوں کو دینی تعلیم دینے کا بیڑہ اٹھایا۔ اس کے لئے رانی خان نے پہلے خود گھر اور دینی مدارس میں قرآن پاک کی تعلیم حاصل کی پھر اپنے وسائل سے دو کمروں کا مدرسہ کھولا جہاں اب خواجہ سرا دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

Image Source: Reuters

عام خواجہ سراؤں کی طرح رانی خان نے بھی اپنا گزر بسر کرنے کے لیے بھیک مانگی اور شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں ڈانس بھی کیا لیکن اپنی ایک دوست کی ہلاکت کے چند روز بعد آنے والے خواب نے ان کی شخصیت بدل دی کیونکہ خواب میں فوت شدہ دوست نے انہیں ڈانس چھوڑنے کا کہا۔ رانی کے بقول اس خواب نے ان کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے اور دین کی جانب ان کا رجحان بڑھنے لگا اور دینی تعلیم سے ان کے دل کو سکون میسر ہوا چنانچہ انہوں نے اپنی کمیونٹی کے افراد کو قرآن پاک کی تعلیم سے آراستہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

Image Source: Reuters

رانی خان کے زیر انتظام چلنے والے اس مدرسے کو حکومت کی طرف سے کوئی امداد نہیں ملی، حالانکہ کچھ حکومتی عہدیداروں نے خواجہ سراؤں کے لئے ملازمت فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم رانی خان اپنے مدرسے میں زیر تربیت خواجہ سراؤں کو سلائی کڑھائی کرنا بھی سیکھا رہی ہیں تاکہ وہ کپڑے بیچ کر اسکول کے لئے فنڈز جمع کرسکیں۔ اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقت نے رانی خان کے مدرسے کھولنے کے اقدام کو سراہتے ہوئے رائٹرز کو بتایا کہ اس مدرسے کے ماڈل کو دوسرے شہروں میں بھی بنانا چاہیئے اس طرح معاشرے میں بہتری آئے گی۔

Image Source: Reuters

یاد رہے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ نے 2018 میں تیسری صنف کو تسلیم کیا جس کے بعد انہیں ووٹ ڈالنے اورجنس منتخب کرنے جیسے بنیادی حقوق حاصل ہوئے۔ بہرحال بنیادی حقوق کے باوجود خواجہ سراؤں کو روزی کمانے کے لئے بھیک مانگنے ،ناچنے اور جسم فروشی کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

Image Source: Reuters

پاکستان کے علاوہ بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں بھی ٹرانسجینڈر لوگوں کے لئے ایک مذہبی اسکول کھولا گیا۔جب کہ پچھلے سال پاکستان میں عیسائی کمیونٹی کے ٹرانسجینڈر گروپ نے عیسائی برادری کی دینی تعلیم کے لئے چرچ کھول لیا۔خیال رہے کہ پاکستان میں 2017 کی مردم شماری میں مطابق 10،000 ٹرانس جینڈر ریکارڈ کیے گئے اس حوالے سے ٹرانس رائٹس گروپس کا کہنا ہے کہ اب 220 ملین آبادی کے ملک میں یہ تعداد 300،000 سے زیادہ ہوسکتی ہے۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *