اتوار کے روز سوئزرلینڈ میں چہرے کو مکمل ڈھانپنے پر پابندی لگانے کی خلاف ہونے والی رائے شماری میں تجویز کو اکثریت کی حمایت حاصل ہوگئی، جس کے بعد عوامی مقامات پر چہرے کو مکمل ڈھانپنے پر پابندی ہوگی۔ اس تجویز کی حمایت اور مخالفت میں محض چند ہزار ووٹوں کا فرق دیکھا گیا، جوکہ تقریباً ایک فیصد بنتا ہے۔ جبکہ سال 2009 میں برقعہ پر پابندی عائد کرنے کے خلاف چلنے والی مہم میں بھی یہی جماعت سرگرم دیکھی گئی تھی۔
تفصیلات کے مطابق اتوار کے روز سوئزرلینڈ میں عوامی مقامات پر چہرے کو مکمل طور پر ڈھانپنے کے خلاف عوامی ریفرنڈم کا انعقاد کروایا گیا، جس میں تجویز کی حمایت میں 14 لاکھ 26 ہزار 992 ووٹ حاصل ہوئے، جوکہ ریفرنڈم کا کل 51.2 فیصد بنتا ہے جبکہ تجویز کی مخالفت میں 13 لاکھ 59 ہزار 691 ووٹ ملے، جوکہ ریفرنڈم کا 50.8 فیصد بنتا ہے۔
اگرچے اس بل میں چہرے کو مکمل طور پر ڈھانپنے کی بات کی گئی ہے لیکن اس میں کسی بھی قسم کی برقعہ یا حجاب کے حوالے سے بات نہیں کی گئی ہے یعنی قسے براہ راست اسلام سے جوڑا نہیں گیا ہے، البتہ ناقدین نے اس پابندی کو اسلامو فوبیا اور نسل پرستانہ اقدام قرار دیا ہے۔
براہ راست جمہوریہ کے سوئس نظام کے تحت تجویز کردہ اسلام کا براہ راست ذکر نہیں ہے۔ تاہم ، ناقدین نے اس پابندی کو اسلامو فوبیاہ اور سیکسسٹ قرار دیا تھا۔ کیونکہ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ سوئس لینڈ میں شازو نازو ہی کوئی شخص پردہ یا نقاب کرتا ہے، لیکن اس اقدام کا نفاذ یقیناً سمجھ سے بالاتر ہے، ساتھ ہی ساتھ کورونا وائرس کے خطرے پیش نظر جب سوئزرلینڈ سمیت پوری دنیا میں ماسک کا استعمال یقینی بنانے کا زور دیا جارہا ہے، اس وقت ایسا اقدام خدشات کو تقویت بخش دیتا ہے۔
سوئس پیپلز پارٹی (ایس وی پی) سے تعلق رکھنے والے رکنِ پارلیمنٹ اور ریفرنڈم کمیٹی کے چیئرمین والٹر ووبمین نے بل کے حوالے سے موقف اپنایا کہ ہماری روایت ہے کہ آپ اپنا چہرہ دکھائیں۔ یہ ہماری بنیادی آزادیوں کی علامت ہے۔ چہرے کو ڈھانپنا، شدت پسند سیاسی اسلام کی علامت ہے، جو یورپ میں کافی تیزی سے پھیل رہا لیکن اس کے لئے سوئزرلینڈ میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
دوسری جانب مسلم گروپوں نے اس بل اور ووٹ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس کو چیلنج کرنے کا اعلان کردیا ہے، ان کے مطابق”آج کا فیصلہ پرانے زخموں کو کھولتا ہے، قانونی عدم مساوات کے اصول کو مزید وسعت دیتا ہے اور مسلم اقلیت کو خارج کرنے کا واضح اشارہ بھیجتا ہے۔
اس حوالے سے سوئٹزرلینڈ میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل نے موقف اپنایا کہ اس پابندی پر عمل درآمد کرنے والے قوانین کو قانونی چیلنجوں اور فنڈ ریزنگ مہم سے ان خواتین کی مدد کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے جن پر جرمانہ عائد ہے ۔
“سوئٹزرلینڈ میں اسلامی تنظیموں کی فیڈریشن نے کہا ،” آئین میں ڈریس کوڈز کو نظر انداز کرنا خواتین کے لئے آزادی کی جدوجہد نہیں ہے بلکہ ماضی کی طرف ایک قدم ہے۔” اس نے مزید کہا کہ مباحثے میں سوئس اقدار کو غیرجانبداری ، رواداری اور امن قائم کرنا پڑا ہے۔
یاد رہے اس سے قبل فرانس نے 2011 میں عوام میں مکمل چہرہ پردہ پہننے پر پابندی عائد کردی تھی۔ مزید برآں ، ڈنمارک ، آسٹریا ، نیدرلینڈز اور بلغاریہ میں عوامی طور پر چہرہ ڈھانپنے پر مکمل یا جزوی پابندی عائد ہے۔
دو سوئس کینٹنوں پر پہلے ہی چہرے کے احاطہ کرنے پر مقامی پابندی ہے۔ اگرچہ سوئٹزرلینڈ میں تقریبا کوئی بھی برقع نہیں پہنتا ہے۔ لوسرین یونیورسٹی کا تخمینہ ہے کہ صرف 30 کے قریب خواتین نقاب پہنتی ہیں۔ جبکہ 8،6 ملین افراد پر مشتمل سوئس آبادی کا 5 فیصد مسلمان ہیں ، جن کی جڑیں زیادہ تر ترکی ، بوسنیا اور کوسوو سے ہیں۔ حکومت نے لوگوں سے پابندی کے خلاف ووٹ ڈالنے کی اپیل کی تھی۔
خیال رہے کہ 2017 میں ، آسٹریا میں مسلمان خواتین کو بھی اپنے چہرے کا پردہ ختم کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ اس سے قبل چین نے سنکیانگ میں برقعے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔
کراچی،14 اپریل 2025: پاکستان میں نفسیاتی تجزیاتی سوچ کو فروغ دینے کی ایک پرعزم کوشش…
سوئی سدرن گیس لمیٹڈ کمپنی نے رمضان المبارک میں گھریلو صارفین کیلیے گیس کی لوڈشیڈنگ…
کراچی سمیت سندھ بھر میں اس سال نویں اور دسویں جماعت کا شیڈول تبدیل کر…
فروری سال کا وہ مہینہ ہے جو محض 28 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے اور…
پاکستان کرکٹ ٹیم کیلئے چیمپئنز ٹرافی کے اگلے راؤنڈ تک جانے کا سفر مشکل ہوچکا…