سندھ حکومت کی نااہلی نے فضائی حادثے کو مزید خراب کیا

گزشتہ روز قومی ائیر لائن پی آئی اے کا مسافر طیارہ پی کے 8303، 92 مسافروں کو لاہور سے کراچی لے کر جارہا تھا، جہاں کراچی ایئرپورٹ پر جہاز کو فنی خرابی پیش آئی، جس کے بعد جہاز کا کنٹرول روم سے رابطہ منقطع ہوا اور قریب 2 بج کر 37 منٹ پر طیارہ پھر گر کر تباہ ہوگیا۔ جس کے بعد کراچی شہر کے تمام اسپتالوں میں سندھ حکومت کی جانب سے ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔

حادثے کے کچھ ہی دیر بعد وزیراعظم پاکستان عمران خان اور صدر پاکستان عارف علوی نے اس واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ۔

دوسری جانب جہاز چوں کہ رہائشی آبادی کی جانب گرا تھا تو ابتداء زیادہ نقصانات کا خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا۔ علاقے میں کافی تنگ گلیاں ہونے کی وجہ سے ابتداء میں ہی امدادی کارروائیوں میں مشکلات نظر آتی رہی تھیں۔ ایسے میں امدادی کارروائیاں بہتر انداز میں جانے کے بجائے خراب ہوتی چلی گئی اور پوری جائے وقوعہ ایک بدانتظامی کا منظر پیش کرنے لگیں۔ یہ بدانتظامیاں عموماً ہر حادثے کے بعد نظر آتی ہیں۔ اصل میں وہ بدانتظامیاں تھیں کیا ذرہ ان پر نظر ڈالتے ہیں پھر بات کرتے ہیں آخر ان بد انتظامیوں کا ذمہ دار کون ہے؟

سب سے پہلے بدانتظامی جو نظر آئی وہ تھی جائے وقوع پر بے انتہاء ایمبولینسس کا ایک یکا یک پہنچ جانا تھا ۔ عموماً یہ عمل ہر واقعے یا سانحہ کے بعد دیکھنے کو ملتا ہے۔ تمام رافائی اداروں کی ایمبولینسز جائے وقوعہ پر پہنچ جاتی ہیں جہاں ضرورت 100 کی ہوتی ہے وہاں انکی تعداد ہمیشہ ان سے دگنی یا تگنی دیکھنے کو ملتی ہے۔ جو بعد میں انتظامی کاموں کو سست روی کا شکار بناتی ہے۔ یہی کل کے واقعہ میں بھی دیکھنے کو ملا۔ اس کا اختیار آخر کس کے پاس ہے؟ یا کون سی ایسی اتھارٹی جو ایسے معاملات کو طے کرنے کی مجاز ہے کہ ایک جائے وقوعہ پر کتنی ایمبولینس بھیجنی ہے ، کتنی کی ضرورت ہے اور کہا ان کو کھڑا کرنا ہے اور کتنی ایمبولینسز کو اسٹینڈ بائی پر رکھنا ہے۔

دوسری سب سے بڑی بد انتظامی اس وقت نظر آئی جب سورج آہستہ آہستہ دوبنے کی طرف تھا۔ حادثے کے فورا بعد اس علاقے کی بجلی منقطع کردی گئی تاکہ مزید نقصان نہ پہنچے۔ اگرچہ ملبہ کسی گاڑی یا وین کا نہیں تھا بلکہ ملبہ جہاز کا تھا۔ تو یہ بات ایک سمجھنے کی تھی کہ ریسکیو آپریشن دیر تک یعنی 8 سے 12 گھنٹے کا وقت لے گا۔ تو لائٹ اور روشنی کے انتظامات پہلے سے کرلیئے جائیں۔ جس میں بڑی بد انتظامی نظر آئی۔

جب امدادی کاروائیوں کے لئے آپریشن کا آغاز ہوا تو اس وقت جائے وقوعہ پر کراچی میں فعال ہر سرکاری جن میں کے ایم سی سے لیکر سندھ حکومت اور دیگر سرکاری اداروں نے اپنا حصہ ڈالا۔ دوسری جانب کراچی میں کام کرنے والی تمام بڑی این جی اوز کے لوگوں نے بھی بحیثیت رضا کرار خدمات انجام دیں۔ سوال یہاں یہ آٹھتا ہے کہ جب اتنے ساریے ادارے ایک ساتھ کام کررہے تھے تو کام سمت کون تشکیل دے رہا تھا۔ کام کا پلان کون بنا رہا تھا؟ وہ کونسا ایسا ادارہ تھا جو چیف کمانڈ کی حیثیت سے کام کر رہا تھا۔اس کا نتیجہ یہ آیا کہ آپس میں ایک دوسرے سے عدم تعاون کی شکایات موصول ہوتی رہیں۔ کیونکہ ایسا کوئی ادارہ وہاں موجود نہ تھا جس کے پاس اس کی براہ راست کمان ہو ۔

دیگر سندھ حکومت نے گزشتہ سال ایک ریسکیو 1122 کی سروس سندھ بھر شروع کرنے کا اعلان کیا تھا، جس کا آغاز کراچی سے ہونا تھا اور 31 اس کے کراچی میں نونٹس قیام عمل میں آنے تھے۔ مقصد تھا کسی بھی قسم کے بڑے حادثے میں ماہرین کی خدمات لی جائیں اور کسی بھی حادثے سے نمٹنے کے لئے مشکلات و پریشانیاں نہ آئیں ۔ البتہ اس بات کو ایک سال ہوگیا لیکن معاملات کہاں تک پہنچنے آج کسی کو بھی علم نہیں۔

دیگر سندھ حکومت نے بقاعدہ ایک قانون سازی کرکے امن ایمبولینس سروس سے معاہدہ کیا تھا اور ان کو سندھ کے بجٹ میں سے حصہ بھی دیا گیا تھا۔ جس کے بعد اس کا نام سندھ ریسکیو اور مینجمنٹ بورڈ رکھ دیا گیا تھا۔ جس کا مقصد تھا کہ سندھ بھر میں سرکاری ایمبولینس سروس چلائی جائیں گی۔ جو کسی سے پیسہ نہیں لیں گی۔ اس وقت 60 سرکاری ایمبولینس اس ادارے کے پاس موجود ہے۔ کیا وہ اس واقعے کے لئے کافی تھیں۔

دنیا میں کسی بھی حادثے کو ریسکیو کرنے کے لئے باقائدہ ایک ادارہ قائم کیا جاتا ہے۔ سندھ میں موجودہ حکومت کو مستقل اقتدار کے تقریباً 12 سال ہوگئے ہیں اور کیا ایسے کسی بھی ادارے کو اب تک تشکیل نہیں دیا گیا ہے؟ جو اس طرح کے معاملات کا مقابلہ کرسکے۔ جس طرح پنجاب میں 1122 کی سروس ہے جو ہر حادثے میں ماہرینہ طور پر کام کرتی ہے۔

اس سے نتیجہ یہ نکلا کہ صوبائی حکومت کے پاس کل اس پورے معاملے سے نمٹنے کے لئے کوئی مخصوص ادارہ موجود نہ تھا۔ پھر صوبے کو بعدازاں آرمی اور دیگر اداروں کی سہولیات حاصل کرنا پڑی۔ البتہ سندھ حکومت کے زیر آثر ادارہ سندھ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ایک کا ادارہ ہے جو اس وقت شہر و صوبے میں کتنا فعال ہے۔ اس پر تمام انتظامیہ کو ایک بار ضرور سوچنے کی ضرورت ہے۔

Ahwaz Siddiqui

Recent Posts

بلال عباس اورر در فشاں نے سب سے چھپ کر نکاح کرلیا ، یوٹیوبر کا دعوی

 یوٹیوبر ماریہ علی نے دعویٰ کیا ہے کہ ڈرامہ سیریل ‘عشق مُرشد’ کی جوڑی بلال…

2 days ago

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑی کمی کردی گئی

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑی کمی کردی گئی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے پیٹرولیم مصنوعات…

4 days ago

نظر بد کا شکار ، یمی زیدی کو بڑے حادثہ سے کس نے بچایا ؟ ویڈیو وائرل

ڈراما سیریل ’جینٹل مین’ کی شوٹنگ کے دوران اداکارہ یمنیٰ زیدی حادثے کا شکار ہوگئیں۔…

6 days ago

ہم اسٹائل ایوارڈ 2024

مئی ہفتے کی شب ‘کشمیر ہم اسٹائل ایوارڈز 2024′ کی شاندار تقریب کا انعقاد کیا…

1 week ago

نیٹ فلکس سیریز”ہیرا منڈی” اور لاہور کی اصلی ہیرا منڈی میں کیا فرق ہے ؟

بالی وڈ کے مشہور ہدایتکار سنجے لیلا بھنسالی کی ویب سیریز ’ہیرا منڈی- دی ڈائمنڈ…

1 week ago

شوبز انڈسٹری میں جنسی استحصال عام ہے، بی گل

پاکستانی ڈراموں و فلموں کی مشہور و معروف لکھاری بی گل نے انکشاف کیا ہے…

2 weeks ago