میڈیکل طالبہ پروین رند کے انکشافات پر وزیر صحت نے تحقیقات کا حکم دیدی


0

سندھ کی وزیر صحت اور پیپلز یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز فار ویمن (پی یو ایم ایچ ایس) نواب شاہ کی وائس چانسلر نے ایک روز قبل یونیورسٹی کے تین آفیسر کے خلاف کے ذریعے ہراساں کرنے اور قتل کی کوشش کے عائد الزامات کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں۔

پی یو ایم ایچ ایس کی میڈیکل کے آخری سال کی ایک طالبہ، جس کی شناخت پروین رند کے نام سے ہوئی، نے بدھ کو سندھ کی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو کے دورہ کے دوران ڈائریکٹر ہاسٹل غلام مصطفیٰ راجپوت کی جانب سے جنسی طور پر ہراساں کیے جانے پر یونیورسٹی کیمپس میں احتجاج کیا۔

Image Source: PUMHS

صوبائی وزیر کو بتایا گیا کہ جنسی ہراسانی کی شکایت کرنے والی لڑکیوں کو یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے قتل کروا دیا جاتا ہے، اور پھر انہیں خودکشی کا رنگ دیا جاتا ہے۔ اس نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس گندے کھیل میں فرحین اور عاطفہ سمیت ہاسٹل وارڈنز بھی ملوث ہیں۔

پروین رند نے الزام عائد کیا جوں ہی اس نے ہاسٹل کے ڈائریکٹر کے ساتھ تعلقات سے انکار کیا ،تو تینوں اہلکاروں نے اسے ہاسٹل کے کمرے میں مارا پیٹا۔ اس دوران دو وارڈنز نے اس کا گلا دبانے کی کوشش کی۔ چنانچہ جب اس نے مدد کے لیے شور مچانا شروع کیا تو ہاسٹل کی دیگر لڑکیوں نے بچایا۔

اس موقع پر متاثرہ لڑکی پروین رند نے اپنے بازوؤں پر تشدد کے نشانات بھی دکھائے اور الزام لگایا کہ اسے غیر اخلاقی احکامات پر عمل کرنے پر مجبور کیا جا رہا تھا۔ انہوں نے اسے دوسری لڑکیوں کی طرح مار ڈالنے کی کوشش کی۔ نامزد ملزم نے اسے بلیک میل کرنے کے لیے اس کا موبائل فون بھی چھیننے کی بھی کوشش کی۔ ساتھ ہی وائس چانسلر ڈاکٹر گلشن میمن پر جرم میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا کیونکہ انہوں نے ان کی شکایات کو نظر انداز کیا۔

اس سلسلے میں پروین رند نے وائس چانسلر پیپلز یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز فار ویمن کی جانب سے پروین رند کیس کے لئے بنائی گئی کمیٹی کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر فریدہ واگن کا ایک رشتہ دار بھی ہاسٹل کے کمرے میں قتل کرنے کی کوشش میں ملوث تھا۔

پروین رند نے مزید کہا کہ انہیں نہ تو وی سی کی بنائی گئی انکوائری کمیٹی پر اعتماد ہے اور نہ ہی ایس ایس پی کی بنائی گئی کمیٹی پر اعتماد ہے، ان کا کہنا تھا کہ وہ تھانوں میں گئیں، ڈائریکٹر ہاسٹلز غلام مصطفیٰ راجپوت، ہاسٹل وارڈنز فرحین اور عاطفہ سمیت تین اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کی۔

Image Source: Twitter

اس دوران متاثرہ اسٹوڈنٹ نے سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹسز سے اپیل کی کہ وہ ان کی اپیلوں کا نوٹس لیں اور انہیں انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔

پروین کے چچا علی نواز رند نے بتایا کہ نواب شاہ پولیس نے ان تینوں یونیورسٹی اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کر دیا جو ان کی بھانجی کو جنسی طور پر ہراساں کرنے اور قتل کرنے کی کوشش میں ملوث تھے۔ انہوں نے کہا کہ لہذا سب سے پہلے ایف آئی آر درج کی جانی چاہیے اور پھر اس واقعے کی عدالتی انکوائری ہونی چاہیے۔

مزید پڑھیں: آئی بی اے میں ہراسگی کے خلاف آواز اٹھانے والے طالبعلم کا داخلہ بحال

واضح رہے پاکستان تحریک انصاف نواب شاہ چیپٹر کے مقامی رہنما عنایت رند نے خبردار کیا ہے کہ اگر مشتبہ اہلکاروں کو گرفتار نہ کیا گیا تو وہ پی یو ایم ایچ ایس انتظامیہ کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کریں گے۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *