نوبل انعام یافتہ پاکستانی اور سماجی کارکن ملالہ یوسفزئی نے جب 9 نومبر کو ٹوئٹر پر اعلان کیا کہ وہ شادی کے بندھن میں بندھ گئی ہیں تو سوشل میڈیا پر اس خبر پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا۔ جہاں کئی لوگوں نے جوڑے کو مبارکباد دی تو وہیں بہت سے لوگوں نے ملالہ کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا کیونکہ اُنہوں نے ماضی میں شادی کے بارے میں کچھ غیر مناسب تبصرے کیے تھے۔
تاہم ، حال ہی میں ملالہ نے ماضی میں دئیے گئے اپنے شادی سے متعلق بیان کی وضاحت کے لئے برطانوی جریدے ووگ میں ایک تفصیلی مضمون لکھاہے، جس میں انہوں نےاپنے اس فیصلے کے بارے میں کُھل کر بات کی اور بتایا کہ عصر میں، انہیں ایک بہترین دوست اور ساتھی ملا ہے۔
اس آرٹیکل کی شروعات کرتے ہوئے ملالہ نے لکھا کہ میں شادی نہیں کرنا چاہتی کم از کم اس وقت تک نہیں جب تک میں 35 سال کی نہ ہوجاؤں۔۔۔ گزشتہ کئی برسوں میں جب بھی مجھ سے اس رشتے سے متعلق سوال ہوا تو میں نے ردعمل میں خود کو لاشعوری طور پر یہی الفاظ دہراتے سُنا کیونکہ میں نے اپنے اردگرد ایسی کئی خواتین کو دیکھا تھا جو شادی کی وجہ سے مشکلات کا شکار تھیں۔
چنانچہ جب برطانوی فیشن میگزین ووگ کے انٹرویو کے دوران مجھ سے شادی کے متعلق سوال کیا گیا تو میں نے وہی جواب دیا جو وہ اس سے پہلے دیتی آئی تھی کیونکہ اس وقت انہیں ایسا لگتا تھا کہ شاید شادی کا رشتہ ان کیلئے نہیں ہے۔
انہوں نے لکھا کہ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ وہ شادی کے خلاف تھیں لیکن رشتہ ازدواج سے متعلق ان کو چند تحفظات ضرور تھے۔ اپنے ان تحفظات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ شادی کے بعد خواتین سے سمجھوتہ کرنے کی توقع، دنیا کے مختلف حصوں میں عورت مخالف رویے، قوانین پر ثقافت کے گہرے اثرات اور پدرانہ جڑیں مجھے معاشرے میں اس رشتے کے موجودہ رواج پر سوال اٹھانے پر مجبور کرتے تھے۔ وہ لکھتی ہیں کہ اس خوف سے کہ کہیں میں اس رشتے میں بندھ کر اپنی آزادی، انسانیت اور نسوانیت نہ کھو دوں مجھے یہی درست لگا کہ شادی کے جھنجھٹ سے فی الحال آزاد رہا جائے۔
ملالہ نے لکھا کہ پاکستان کے جس علاقے میں میری پرورش ہوئی وہاں لڑکیوں کو یہی سکھایا جاتا ہے کہ شادی ایک آزاد زندگی کا متبادل ہے۔ اگر آپ پڑھائی نہیں کررہے، یا اپنا کیریئر نہیں بنا رہے یا امتحانات میں فیل ہورہے ہیں تو ان تمام مسائل کا حل یہی بتایا جاتا تھا کہ جلدی سے لڑکی کی شادی کردی جائے۔
اُنہوں نے ایک رپورٹ کا بھی حوالہ دیا اور بتایا کہ ہر سال تقریباً 12 لاکھ لڑکیوں کی 18 سال کی عمرمیں پہنچنے تک شادی کردی جاتی ہے۔
ملالہ یوسفزئی نے اس آرٹیکل میں اپنی اور عصر کی ملاقات کے بارے میں بھی بتایا، ان کے مطابق اُن کی اور عصر کی پہلی ملاقات 2018 میں اس وقت ہوئی جب عصر اپنے دوستوں سے ملنے آکسفورڈ آئے ہوئے تھے اور ان کا تعلق کرکٹ سے تھا۔ ملالہ کے مطابق عصر کو ان کی حسِ مزاح بہت بھائی اور ان دونوں کی دوستی ہوگئی۔ انہوں نے بتایا کہ ہم میں بہت سی قدریں مشترک تھیں اور ہم ایک دوسرے کی کمپنی سے محظوظ ہوتے تھے۔ ہم نے خوشی اور مایوسی کے بہت سے لمحات میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔ اپنی اپنی زندگیوں کے اتار چڑھاؤ میں ہم نے آپس میں بہت سے دکھ سکھ بانٹے۔
ملالہ نے مزید لکھا کہ مجھے اپنے لیے شادی کا فیصلہ کرنا بہت مشکل لگا، مجھے لگتا تھا کہ میں شادی نہیں کرسکوں گی لیکن عصر سے ملنے کے بعد میرے خیالات میں تبدیلی آئی۔ میں نے عصر سے بات چیت کی، اپنے خیالات کا اظہار کیا اور پھر اہلخانہ کی مشاورت سے شادی کا فیصلہ کیا اور 9 نومبر کو اہلخانہ اور قریبی دوستوں کی موجودگی میں ان دونوں کا نکاح نہایت سادگی سے ہوگیا۔ اپنے اس آرٹیکل کا اختتام کرتے ہوئے ملالہ نے لکھا کہ میں اور عصر آئندہ کے سفر کے لیے ایک ساتھ چلنے کے لیے پرُجوش ہیں۔
کراچی،14 اپریل 2025: پاکستان میں نفسیاتی تجزیاتی سوچ کو فروغ دینے کی ایک پرعزم کوشش…
سوئی سدرن گیس لمیٹڈ کمپنی نے رمضان المبارک میں گھریلو صارفین کیلیے گیس کی لوڈشیڈنگ…
کراچی سمیت سندھ بھر میں اس سال نویں اور دسویں جماعت کا شیڈول تبدیل کر…
فروری سال کا وہ مہینہ ہے جو محض 28 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے اور…
پاکستان کرکٹ ٹیم کیلئے چیمپئنز ٹرافی کے اگلے راؤنڈ تک جانے کا سفر مشکل ہوچکا…