اسلام آباد میں جوڑے کو ہراساں کرنے کے کیس میں متاثرہ لڑکی نے بدھ کو دوران سماعت گواہی دی کہ اسے ان ملزمان کے خلاف مقدمہ دائر کرنے پر مجبور کیا گیا، جنہوں نے اسے اور اس کے دوست پر تشدد کیا۔ چنانچہ ایک بار پھر، متاثرہ لڑکی نے کیس کی پیروی کرنے سے انکار کر دیا۔
تفصیلات کے مطابق گزشتہ برس جولائی میں سوشل میڈیا پر ایک ہولناک ویڈیو وائرل ہوئی تھی، جس میں دیکھا گیا تھا کہ ایک مشتبہ شخص اپنے ساتھیوں کے ہمراہ نوجوان لڑکے اور لڑکی پر بہیمانہ انداز میں تشدد کا نشانہ بنا رہا اور انہیں کپڑے اتارنے اور جنسی تعلق قائم کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔
چنانچہ پولیس نے کاروائی کرتے ہوئے تمام ملزمان کو حراست میں لیکر مقدمہ درج کرلیا تھا، جبکہ ستمبر میں مرکزی ملزم عثمان مرزا اور شریک ملزمان حافظ عطاء الرحمان، اداس قیوم بٹ، ریحان، عمر بلال مروت، محب بنگش اور فرحان شاہین کے خلاف عدالت نے فرد جرم عائد کردی تھی۔
گزشتہ سماعت میں ایف -11 کے فلیٹ میں عثمان مرزا اور اس کے گینگ کے خلاف الزامات سے پیچھے ہٹنے والی متاثرہ خاتون نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عطا ربانی کے سامنے گواہی دی کہ اس پر کیس کی پیروی کے لیے بار بار دباؤ ڈالا جا رہا تھا کہ وہ کیس کی پیروی کرے، اگرچے وہ کسی بھی ملزم کو نہیں جانتی ہے۔
بعدازاں پارلیمانی سیکرٹری برائے قانون ملیکہ بخاری نے اعلان کیا تھا کہ ریاست اسلام آباد میں جوڑے کو ہراساں کرنے کے مقدمے کی پیروی کرے گی، اس حقیقت کے باوجود کہ متاثرین نے الزامات کو واپس لے لیا ہے۔
اس موقع پر پراسیکیوٹر رانا حسن عباس نے متاثرہ شخص سے جرح کی اور اس سے واقعے کا پس منظر بیان کرنے کو کہا۔ متاثرہ نے عدالت کے روبرو مبہم جواب میں کہا کہ اسے واقعے کی تفصیل یاد نہیں ہے اور یہ بھی یاد نہیں کہ اس دن اس نے کون سے کپڑے پہن رکھے تھے۔
عدالت نے سرکاری وکیل کی درخواست پر کمرہ عدالت میں واقعے کی ویڈیو چلانے کی اجازت دے دی۔ ایک مشتبہ شخص بلال مروت کے وکیل ایڈووکیٹ شیر افضل خان مروت نے عدالت سے فوٹیج دوبارہ چلانے کی درخواست کی کیونکہ اس نے مرد متاثرہ شخص سے جرح کرنے کی کوشش کی تھی۔
ایڈووکیٹ شیر افضل خان مروت کا کہنا تھا کہ وہ اس آدمی کا چہرہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے کہنے پر ویڈیو دوبارہ چلائی گئی۔ اس دوران متاثرہ لڑکی نے جج کو بتایا کہ وہ اس ویڈیو میں نہیں تھی جو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھی۔ اس دنیا میں ایک ہی چہرے کے سات لوگ ہیں۔
متاثرہ لڑکی نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے متعدد بار خالی کاغذ پر اس کے فنگر پرنٹس اور دستخط حاصل کیے ہیں۔ ان کے وکیل ارباب عالم عباس نے وکیل دفاع کے بار بار سوالات پر اعتراض بھی کیا۔
متاثرین پر جرح مکمل ہونے کے بعد عدالت نے مزید کارروائی 25 جنوری تک ملتوی کردی۔ متاثرہ لڑکی نے پہلے بھی عدالت کو بتایا تھا کہ وہ اس مقدمے کی اگلی سماعت میں پیش نہیں ہونا چاہتی ہے۔
کراچی،14 اپریل 2025: پاکستان میں نفسیاتی تجزیاتی سوچ کو فروغ دینے کی ایک پرعزم کوشش…
سوئی سدرن گیس لمیٹڈ کمپنی نے رمضان المبارک میں گھریلو صارفین کیلیے گیس کی لوڈشیڈنگ…
کراچی سمیت سندھ بھر میں اس سال نویں اور دسویں جماعت کا شیڈول تبدیل کر…
فروری سال کا وہ مہینہ ہے جو محض 28 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے اور…
پاکستان کرکٹ ٹیم کیلئے چیمپئنز ٹرافی کے اگلے راؤنڈ تک جانے کا سفر مشکل ہوچکا…