ایماندار


0

“بس اب اور نہیں ہو رہا،میں نے بہت کوشش کی مگر اب اور نہیں” امجد نے اپنا قلم ایک طرف پھینکا اور اکتا کر کہا ۔وہ پچھلے دو دن سے پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا مگر مجال کہ اسے کچھ یاد ہوا  ہو یا شاید اسے یاد بھی ہوا ہو مگر اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔اچانک اسے آذان کی اواز آـئ،جب اس نے گھڑی دیکھی تو سوا پانچ  ہو چکے تھے۔وہ اپنی کرسی سے اٹھا اور مسجد کی جانب بڑھ گیا۔ نمازکے بعد وہ گراونڈ چلا گیا۔جب واپس پہنچا تو آٹھ بج چکے تھے۔کرسی کھینچ کر وہ دوبارہ کتابوں کے سامنے بیٹھ گیا۔

“آیڈیا،کیوں نہ اس آخری سوال کی پرچی بنا لی جائے،ویسے بھی ایک ہی تو ہے باقی تو یاد کر لیے نہ میں نے اب یہ والا نہیں ہو رہا تو اس میں میرا کیا قصور ہے۔”امجد مسلسل اپنے آپ سے باتیں کر رہا تھا۔وہ ایک عجیب انسان تھا حب کبھی وہ پریشان ہوتا تو اپنے آپ سے باتیں کرنے لگ جاتا۔بڑی ہی نفاست سے آخری سوال ایک چھوٹی پرجی پر اتارا گیااور پھر جرابوں کے اندر چھپا دیا گیا۔وہ جانتا تھا کہ پہلے امتحان میں چیکنگ تو ضرور ہو گی اس لیے پرچی جیب میں ڈالنے کی بجائے جرابوں میں ڈال دی۔امی  کہ بلانے پر وہ کھانا کھانے چلا گیا۔واپس آکر وہ خوشی خوشی بیڈ پر لیٹا اور سو گیا

“جتنے حروف اس پرچی پر لکھے ہیں اتنے کوڑے مارے جائیں اس لڑکےکو “کوئی عجیب سی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔

“رکو۔۔۔”ایک اور آواز آئی

“کیوں نہ سب کے سامنے اس کا راز افشاں کیا جائے اور پھر اسے کوڑے مارے جائیں”پھر اسے گھسیٹا گیا اور ایک بھرے مجمعے کے سامنے کھڑا کر دیا گیا۔وہ ہر اس شخص کو جانتا تھا جو مجمعے میں کھڑا تھا۔اس کے والدین،دوست،بہن بھائی،سب خاندان والے اور سکول کے تمام طلبا اور اساتذہ سب بڑے انہماک سے اسے دیکھ رہے تھے۔

” اس بچے نے بے ایمانی کہ سہارے امتحان میں اچھے نمبر لینے کی کوشش کی اور اس کی سزا میں اب اسے کوڑے مارے جائیں کے” اس کہ پاس کھرا شخص اونچی آواز میں کہہ رہا تھا۔پھر اچانک مجمعے میں شور اٹھا۔

“مارو اس بے ایمان کو ،مارو” اس نے نظر اٹھا کر اوپر دیکھا اسکے والدین اور اساتدہ کے سر شرم سے جھکے ہوئے تھے۔اچانک اسے درد محسوس ہوا،اب اسے کوڑے مارے جا رہے تھے۔درد کے مارے اس کے منہ سے چیخین نکل ائیں۔وہ ہڑبڑا کر نیند سے اٹھ گیا اور تیز تیز سانس لینے لگا۔پسینا اب اسکی پیشانی پر نمایاں نظر آرہا تھا۔کمرے کا دروازہ کھلا اور اسکی بڑی بہن اندر داخل ہوئی۔وہ اسے فجر کی نماز کے لیے اٹھانے آئی تھی۔مجد کو پریشان دیکھ کر وہ وہیں بیڈ پر بیٹھ گئی

“کیا ہوا” اس نے امجد سے سوال کیا۔امجد نے اسے اپنے خواب کی پوری روداد سنا دی۔

“اچھا ہی ہوا ویسے ،خدا نے تمہیں اس گناہ سے پہلے ہی بچا لیا،اس پرچی کو پھاڑ دو اور سوال یاد کرنے کی کوشش کرو،مجھے پور یقین ہے کہ تم کر لو گے۔ایک اور بات امجد چیٹنگ چیٹنگ ہوتی ہے پھر چاہے وہ ایک سوال کی ہو یا پورے امتحان کی کہلاتی وہ بےایمانی ہی ہے۔ایمانداری سے پیپر دو پھر دیکھنا تمھارا دل کتنا مطمئن ہوتا ہے۔”

بہن کی بات پر اس نے سر ہلایا اور گھڑی پر وقت دیکھنے لگا۔اسکی بہن اب اٹھ کر جا رہی تھی۔دروازے کے پاس پہنچتے ہی وہ پیچھے مڑی اور بولی”یاد آیا امی نے کہا تھا امجد کو بولو نماز پڑھ لے ٹائم جا رہا ہے” یہ کہتے ہی اس نے دھڑام سے دروازہ بند کیا اور چلی گئی۔امجد نے وضو کر کے نماز پڑھی اور اپنے گناہ کی معافی مانگی اور اللہ تعالی کا شکر ادا کیا کہ انہوں نے اسے بچا لیا۔اب ایک مرتبہ پھر امجد اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔آدھے گھنٹے کی سر توڑ محنت کے بعد بالآخر اسے سوال یاد ہوگیا۔ اس نے اللہ تعالی کا شکر ادا کیا  اور امتحان دینے چلا گیا۔

پیارے بچو اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ چاہے جو بھی ہو جائے ہمیں ہر کام ایمانداری سے کرنا چاہیے ۔


Like it? Share with your friends!

0
urdu-admin

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *