
کراچی سے تعلق رکھنے والی ایک باہمت خاتون نے مالی پریشانیاں دور کرنے کے لئے تندور لگا لیا۔ فاطمہ نازش جو چار بچوں کی ماں ہیں انہوں نے اپنے بچوں کی اچھی پرورش اور مالی حالات بہتر کرنے کے لئے کمرکس لی اور تندور لگا کر اپنے بزنس کا آغاز کیا۔
ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے فاطمہ نازش نے بتایا کہ انہوں نے تندور کے بزنس کے بارے میں لوگوں سے سُنا ہوا تھا، اس معلومات پر انہوں نے خود کا تندور لگانے کا فیصلہ کیا۔ وہ بتاتی ہیں کہ تندور لگانے کے بارے میں جب ان کی فیملی کو پتہ چلا تو کسی نے ان کی حوصلہ افزائی نہیں کی بلکہ الٹا ان کو باتیں سنائیں لیکن وہ ٹھان چکی تھی کہ وہ یہ کاروبار ضرور کریں گے۔ اس کے لئے سب سے پہلے انہوں نہ دکان دیکھی ، دکان لینے میں بھی انہیں دشواری پیش آئی کیونکہ اگریمینٹ کے وقت ان سے کہا گیا کہ کسی مرد کو لائیں یہ کام عورتیں نہیں کرتیں۔ خیر انہوں نے دکان خریدلی اور باقاعدہ اپنے کام شروع کیا۔

فاطمہ نازش بتاتی ہیں کہ جب انہوں نے تندور کا آغاز کیا تو اردگرد کے تندور والے ان کے پاس آئے اور کہا کہ یہ کام ختم کردیں لیکن انہوں نے اپنا کام جاری رکھا اور اللہ نے انہیں محنت کا پھل دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ لوگ ابھی تک پریشان ہی ہیں کہ میں نے یہ کام کر کیسے لیا؟ لوگوں کا کہنا تھا کہ عورتیں تندور نہیں چلا سکتیں لیکن الحمد اللہ میں تندور چلا رہی ہوں۔
فاطمہ نازش کو آن لائن کھانا بیچنے کا بھی تجربہ ہے اس لئے وہ اپنے تندور پر فروخت ہونے والا کھانا بھی خود گھر سے بنا کر لاتی ہیں۔ تندور لگانے سے قبل فاطمہ نازش نے مختلف اداروں میں مارکیٹینگ کی جاب بھی کیں ہیں اور وہ خود بائیک بھی چلاتی ہیں۔

اس حوالے سے منفی سماجی رویوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ عام لوگوں کو تو چھوڑیں میرے اپنے رشتے داروں نے مجھے بائیک چلانے پر بہت باتیں سنائیں اور یہاں تک کہہ دیا کہ بائیک پر ہمارے گھر مت آنا۔
ڈان نیوز سے اپنی گفتگو میں فاطمہ نازش نے کہا کہ خواتین کام کرنا چاہتی ہیں لیکن انہیں کام
کرنے میں کئی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اکثر گھرانوں میں لوگ کیا کہیں گے کی وجہ سے عورتوں کو کام کرنے سے روکا جاتا ہے مجھے خود بھی اس طرح کی مشکالات پیش آئیں لیکن لوگ میرے بارے میں کیا کہیں گے میں یہ نہیں سوچتی ،مجھے جو ٹھیک لگتا ہے میں کرتی ہوں کیونکہ لوگوں کا تو کام ہے باتیں بنانا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ بائیک چلانا تندور لگانا میرا فیصلہ تھا اور اللہ کے کرم سےمیں نے اسے پورا کرلیا۔
کورونا وائرس کے بعد سے لوگوں کو اقتصادی مشکلات کا سامنا ہے جس سے متوسط طبقے کی معاشی دشواریاں مزید بڑھ گئی ہیں اور ایسے میں ذریعہ معاش کے حصول کے لیے خاندان کے کسی ایک ہی فرد پر انحصار کے رجحان میں نمایاں تبدیلی آئی ہے اور اب خواتین بھی معاشی پریشانیوں کے حل کے لئے ملازمت اور گھر بیٹھے کام کر رہی ہیں۔
NEWS CREDIT: DAWN
0 Comments