ضروری نہیں کہ مزدور کے بچے مزدور ہی رہیں ، یہ ثابت کرنا مشکل تھا مگر ناممکن نہیں لیکن اپنی ہمت اور انتھک محنت سے یہ بات ڈاکٹر زرین زہرا نے سچ کر دیکھائی ہے۔ ڈاکٹر زرین پی ایچ ڈی ہیں اور ایک محنتی مزدور کی بیٹی ہیں۔
زندگی میں محنت کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کے سانس لینا اگر آپ کچھ پانا چاہتے ہیں تو بس سچی لگن کے ساتھ محنت کریں کامیابیاں آپ کے قدم چومیں گی، ڈاکٹر زرین کی کہانی ہمیں یہی سبق سیکھاتی ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا تھا اپنی امی کو لوگوں کے کپڑے سلائی کرتے اور ابو کو فیکٹری میں جاب کرتے دیکھا۔ میں جب ساتویں جماعت میں تھی تو میں نے بھی امی کے ساتھ سلائی شروع کردی اور پھر رات کے بارہ بجے تک ہم سلائی کرتے۔ میں کبھی نھیں بھول سکتی وہ دسمبر کی راتیں ، جب میں گیارہ بجے گھر آتی تھی تو سردی میں ہاتھ اس قدر جمے ہوئے ہوتے کے كھانا بھی نہیں کھایا جاتا تھا۔
زرین ملک کا مزید کہنا تھا کہ مجھے آج بھی یاد ہے، جس دن میرا ایم ایس سی کا قائدآعظم یونیورسٹی میں انٹری ٹیسٹ تھا ،اس دن میری دادی کا انتقال ہو گیا تھا اور میں نے کس طرح جا کر ٹیسٹ دیا تھا، وہ میں کبھی نہیں بھول سکتی۔ 2010 میں جب میں نے ہوم ٹیوشن شروع کی تھی مجھے پہلی ہوم ٹیوشن سے پہلے مہینے کی تنخواہ 1 ہزار روپے ملے تھی۔
ڈاکٹر زرین نے بتایا کہ انہوں نے ابتداء میں پنجاب پبلک سروس کمیشن کی لیکچرر شپ حاصل کی۔ او جی ڈی سی ایل نے بھی انہیں پیشکش کی۔ انہیں پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن میں جونئیر سائنس دان ہونے کا اعزاز بھی حاصل رہا، جو زرین کے مطابق انہوں نے اپنی قابلیت اور اپنے بل بوتے پر حاصل کیا۔
قائداعظم یونیورسٹی سے ایم ایس سی اور ایم فل کرنے کے بعدانہوں ناصرف چین میں پی ایچ ڈی کی اسکالرشپ ملی بلکہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی اسکالرشپ بھی ملی۔ زرین کہتی ہیں کہ کبھی کبھی سوچتی ہوں تو حیران ہوتی ہوں کہ یہ سب میں نے کیسے کیا کیونکہ پڑھنے کے لیے تو کبھی وقت ملتا ہی نہیں تھا کیونکہ قائداعظم یونیورسٹی میں ایم ایس سی اور ایم۔فل کرتے ہوئے صبح سات سے شام پانچ بجے تک واپسی ہوتی تھی اور پھر اکیڈمی اور ہوم ٹیوشن میں ہی رات کے بارہ بج جاتے تھے اور اس ٹائم میں گھر کی واحد کفیل تھی۔ اسی دوران بہن کی شادی کی اور بھائی کی پڑھائی بھی اور اس کے بعد اپنی شادی کی۔
اپنی شادی شدہ زندگی کے بارے میں زرین بتاتی ہیں کہ میرے شوہر اور ان کے گھر والے بہت زیادہ سپورٹ کرنے والے ہیں۔ میری امی نے جہیز کے نام پر کچھ نہیں دیا تھا اور نہ ہی سسرال والوں نے ڈیمانڈ کی۔ آج میں اپنے شوہر کے تعاون سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کررہی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ شادی کے بعد انہیں پڑھائی کے ساتھ بچوں کی پرورش میں کافی چیلنجز کا سامنا ہوا جس کے بعد انہوں نے ایک ایسے طریقہ کار پر سوچ بچار شروع کردی جو سائنسی ہو اور جو بچوں کی پرورش میں معاون ثابت ہونے کے ساتھ والدین کے لیے آسانی بھی پیدا کرے۔
اس بارے میں زرین بتاتی ہیں کہ میرے لیے دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ بچوں کی پرورش پر توجہ دینا بھی نہایت اہم تھا۔ میں نے تین غیر ملکی ماہر خواتین، جن کا تعلق کینیڈا اور متحدہ عرب امارات سے ہے، کی خدمات حاصل کرکے ایک فیس بک گروپ کا آغاز کردیا تاکہ والدین میں بچوں کی پرورش کے حوالے سے شعور بیدار کیا جاسکے اور وہ اس حوالے سے جدید ریسرچ سے باخبر رہیں۔
ڈاکٹر زرین کے مطابق ان کے فیس بک گروپ، “ارلی چائلڈ ہڈ اینڈ پیرینٹنگ ایجوکیشن آف پاکستان” میں نوہزار والدین روزانہ کی بنیاد پر بچوں کی پرورش کے حوالے سے ماہرین کی آراء اور تحقیق سے استفادہ کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر زرین زہرا کی کہانی متوجہ کرنے والی ہے کیونکہ کم وسائل اور مشکل حالات میں کچھ کر دکھانے والے لوگ سب کے لئے مثال بن جاتے ہیں اور لوگوں کی اکثریت اس طرح کی کہانیوں کا موازنہ اپنی زندگی کے مصائب و مشکلات سے کرتی ہے اور نتیجتاً لوگوں میں ہمت پیدا ہوتی ہے اور وہ ناکامیوں کو پس پشت ڈال کر نئی توانائی سے اپنی مشکالات کا مقابلہ کر پاتے ہیں۔
Story Credit: The Other Side-Pakistan
کراچی،14 اپریل 2025: پاکستان میں نفسیاتی تجزیاتی سوچ کو فروغ دینے کی ایک پرعزم کوشش…
سوئی سدرن گیس لمیٹڈ کمپنی نے رمضان المبارک میں گھریلو صارفین کیلیے گیس کی لوڈشیڈنگ…
کراچی سمیت سندھ بھر میں اس سال نویں اور دسویں جماعت کا شیڈول تبدیل کر…
فروری سال کا وہ مہینہ ہے جو محض 28 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے اور…
پاکستان کرکٹ ٹیم کیلئے چیمپئنز ٹرافی کے اگلے راؤنڈ تک جانے کا سفر مشکل ہوچکا…