بہتان


0

آسلام علیکم دوستو امید ہیں آپ خیریت سے ہوں گے میرا نام اسمہ ہے اسمہ شہزاد اور میں جماعت نہم کی طالب علم ہوں،ہمارے خاندان میں پانچ لوگ ہیں امی ابو میں اور میرے دو چھوٹے بھائی اور بھی بہت لوگ ہیں مگر وہ سب گاؤں میں رہتے ہیں ہم صرف روشنیوں کے شہر کراچی میں رہائش پذیر ہیں ۔تو بات ہے کل کی جب میں اپنا ہوم ورک کر رہی تھی اور میں نے اپنے چھوٹے بھائی کو غصہ کرتے دیکھا۔اوہ ہو میں اپنے بھائیوں کے نام بتانا تو بھول ہی گئی ،مجھ سے جو چھوٹا بھائی ہے اسکا نام ہے رضا ،رضا پانچویں جماعت کا طالب علم ہے اور جو سب سے چھوٹا بھائی ہے اسکا نام ہے اسد جو جماعت اول میں ہے تو کل جو ہوا وہ آپ خود کی دیکھ لیں”

“امی امی اسد کو دیکھیں ناں اس کو میں نے منع بھی کیا تھا مگر پھر بھی اس نے میرا نیا قلم اٹھا لیا، ابو نے کل ہی لے کر دیا تھا آپ اس کو سمجھائیں ناں ہر وقت میری چیزوں میں گھسا رہتا ہے”رضا بہت غصے سے اپنی امی کو کہہ رہا تھا۔

“اسد بیٹا آپ نے ایسا کیا ہے”

“نہیں امی میں نے بھیا کا پن نہیں اٹھایا، مجھے تو پتا بھی نہیں ہے کہ کہاں رکھا ہے” اسد نے ڈرتے لہجے میں بتایا۔

“اس نے نہیں اٹھایا تو پھر کس نے اٹھایا ہے یہی ہر وقت دوسروں کی چیزوں میں ہاتھ مارتا رہتا ہے “

مزید پڑھیں: نماز کی ادائیگی

“جب وہ کہہ رہا ہے کہ اس نے نہیں اٹھایا تو پھر کیوں اتنا شور ڈال رہے ہو” امی نے اسد کی سائیڈ لیتے ہوئے کہا۔

“جھوٹ بول رہا ہے یہ ہر وقت جھوٹ بولتا ہے اور آپ ہر بار اسی کی سائیڈ لیتی ہیں چھوٹا ہے ناں اس لیے سب کا لاڈلا ہے” رضا شہزاد پیر پٹخ کر اندر جا چکا تھا۔باہر خاموشی چھا گئی تھی۔

بات یہاں پر ختم نہیں ہوئی اصل ڈراما تو رات کو لگا تھا جب ابو دفتر سے آئے تھے،دراصل ہوا کچھ ایسا تھا کہ وہ پن ابو نے صبح اٹھایا تھا کچھ لکھنے کے لیے اور واپس رکھنا بھول گئے تھے ۔

“رضا ” شہزاد صاحب اپنے بیٹے کو آواز دے رہے تھے

“جی ابو” رضا نے تابعداری سے جواب دیا

“یہ بیٹا آپ کا پن ہے صبح میں نے اٹھایا تھا مگر واپس رکھنا ہی بھول گیا”انہوں نے اپنے کوٹ کی جیب میں سے پن نکال کر رضا کی طرف بڑھایا۔

“یہ پن آپ کے پاس تھا اور میں سمجھ رہا تھا کہ اسد نے گما دیا ہے” رضا نے بتایا

“آپ نے اسد کو کچھ کہا تو نہیں”

“ایسا ویسا جو منہ میں آیا نواب صاحب نے سب کہہ دیا” امی اب کچن میں سے بتا رہی تھیں

مزید پڑھیں: پانی کا ضیاع

“اس کا مطلب کہ آپ نے اسد پر بنا ثبوت کے الزام لگا دیا”

“سوری ابو ” رضا شرمندگی سے کہہ رہا تھا۔

“سوری مجھ سے نہیں اسد سے کیجیے آپ نے اسکا دل دکھایا ہے “

شہزاد صاحب اب اپنے بیٹے کو سمجھا رہے تھے۔

اس کے بعد رضا نے اسد سے معافی مانگی اور مانگنی بھی چاہیے تھی آخر الزام لگانا وہ بھی بنا ثبوت کے گناہ ہے خیر ایسا کام کبھی نہ کبھی ہم سے بھی ہو جاتا ہے تو اگر کبھی آپ سے ایسی غلطی ہو جائے تو جا کر فوراً معافی مانگ لیں ۔


Like it? Share with your friends!

0
urdu-admin

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *