بیٹی کی موت نے باپ کی زندگی کا مقصد بدل ڈالا


0

باپ اور بیٹیوں کے انمول تعلق کو بیان کرنے کے لئے الفاظ کم پڑجاتے ہیں۔ بیٹی کے لئے باپ رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے اور باپ کے لئے بھی بیٹی کسی شہزادی سے کم نہیں ہوتیں۔ ایک باپ کی اپنی بیٹی سے محبت کی ایسی ہی مثال ڈاکٹر اسد امتیاز ہیں جو اپنی مرحومہ بیٹی کے مشن کو بڑی محنت سے پورا کر رہے ہیں۔

صوبہ پنجاب کے شہر گوجرانولہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر اسد امتیاز کو آج سے دو سال پہلے تک شاید ان کے اپنے شہر میں چند ہی لوگ جانتے ہوں گے مگر اب اپنی بیٹی فاطمہ کی بدولت ان کی شناخت بدل چکی ہے اور اب انہیں ہزاروں لوگ جانتے ہیں وہ بھی ان کے فلاحی کاموں کی وجہ سے۔

fatima father fulfill wish
Image Source: BBC URDU

خبر رساں ادارے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے ڈاکٹر اسد امتیاز نے بتایا کہ میری بڑی بیٹی فاطمہ ہم سب کی آنکھ کا تارا تھی۔ دو سال پہلے وہ اچانک کینسر کے مرض کا شکار ہو کر دنیا چھوڑ گئی اس وقت وہ نویں کلاس کی طالبہ تھی۔ اس کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد میرے پاس دو ہی راستے تھے یا تو میں روایتی طریقے سے کچھ دن رو دھو کر دوبارہ سے اپنے کام کاج میں لگ جاتا، برسی آتی تو ختم وغیرہ دلوا کر اس کام سے سبکدوش ہو جاتا لیکن میں نے دوسرا راستہ چُناجو کہ خدمت خلق کا ہے یہ مشکل ضرور ہے لیکن اس راستے پر چل کر میں روز ِقیامت اپنی بیٹی کے سامنے سرخرو ہو جاؤنگا۔

ڈاکٹر اسد امتیاز گوجرانولہ کے واپڈا اسپتال میں میڈیکل اسپیشلسٹ ہیں جبکہ وہ شہر کے ایک بڑے پرائیویٹ ہسپتال میں بھی شام کے وقت ڈیوٹی دیتے ہیں۔ ڈاکٹر اسد امتیاز کی اہلیہ بھی ڈاکٹر ہیں۔ دونوں میاں بیوی میڈیکل کالج میں کلاس فیلوز تھے۔ فاطمہ کی موت کا صدمہ اتنا گہرا ہے کہ ڈاکٹر اسد کی اہلیہ اب بھی ذہنی طور پر اس سے باہر نہیں نکل سکیں ہیں۔

ڈاکٹر اسد بتاتے ہیں کہ جب فاطمہ کو اچانک کینسر ہوا تو ہم نے اس کے علاج کے لیے دن رات ایک کیا۔مجھے یاد ہے کہ وہ آخری دن تک اپنے ہوش و حواس میں تھی۔ اس کی وکٹری کی فوٹو ہمیں حیران کر دیتی ہے کہ جیسے اسے یقین ہو کہ اس نے موت کو شکست دے کر اور صحت یاب ہو کر گھر واپس آجانا ہے۔

fatima cancer last wish
Image Source: BBC URDU

انہوں نے بتایا کہ جب فاطمہ کی کیمو تھراپی ہورہی تھی تو وہ ہنس رہی تھی وکٹری کا نشان بنا رہی تھی میں نے فاطمہ سے کینسر کا پوچھا کہ یہ تمھارے ساتھ ہی کیوں ہو رہا ہے تو اس کا جواب مختلف تھا اس نے کہا کہ مجھ اکیلی کے ساتھ ایسا نہیں ہوا یہاں اور بھی بہت سے لوگ بیمار ہیں۔ اس کا جواب میرے لیے حیرت اور خوشی کا باعث تھا، ناشکری کا ایک لفظ تک اس کی زبان پر نہیں آیا۔

باپ بیٹی کی محبت کا یہ عالم تھا کہ جب دوران علاج فاطمہ کے بال اتارے گئے تو ڈاکٹر اسد نے بھی بیٹی کی محبت میں گنج کروالی جس پر فاطمہ بے حد خوش ہوئی۔

لیکن پھر فاطمہ کی اچانک موت نے جیسے انہیں جینے کے لئے کئی مقصد دے ڈالے۔انہوں نے بتایا کہ فاطمہ نے ایک دفعہ اپنی ماں سے کہا تھا کہ میری خواہش ہے کہ میری طرف سے چیرٹی (خیرات) ہو اور میرے بِل بورڈ شہر میں لگے ہوں۔ تو ماں نے ہنس کے جواب دیا کہ اس کے لیے تو میموریل ہونا پڑتا ہے اور پھر ایسا ہی ہوا۔ فاطمہ کی وفات کے بعد فاطمہ اسد ویلفیئر کلینک کے نام سے شہر بھر میں بل بورڈز لگے۔

fatima father
Image Source: BBC URDU

اتنی چھوٹی عمر میں تو لڑکیوں کو عموما ًکپڑوں میک اپ وغیرہ کا شوق ہوتا ہے تو فاطمہ کا سوچنے کا انداز اتنا الگ ہونے کی وجہ کیا تھی ؟ اس بارے میں ڈاکٹر اسد امتیاز کا کہنا تھا کہ وہ عام لڑکی نہیں تھی، وہ حساس طبیعت کی مالک تھی، وہ جب اسکول کی طالبات کے ساتھ سول اسپتال کے دورے پر گئی تو اس نے دیکھا کہ ایک ایک بیڈ پر تین، تین مریض زیر علاج ہیں ،گھر آکر اس نے مجھ سے ضد شروع کردی کہ اسپتال میں غریب لوگوں کو کھانا دینا چاہیئے، فاطمہ اسد دستر خوان کا سلوگن اس نے خود رکھا تھا جو کہ ”آئیں مل کر روٹی کھائیں” ہے۔

ڈاکٹر اسد اپنی لخت جگر کے اس مشن کو زندہ رکھے ہوئے ہیں، حیدری روڈ پر 200 سے زیادہ مستحق گھرانوں کو روزانہ کھانوں کے پارسل بھجوائے جاتے ہیں، سول اسپتال میں 700 بیڈز کو دو وقت کا کھانا دیا جاتا ہے، غریب افراد کے گھروں کے کرائے ادا کیے جاتے ہیں، بیواؤں کو ماہانہ تین تین ہزار روپے جیب خرچ دیاجاتا ہے، پڑھائی میں ذہین طلباء اور طالبات کو ماہانہ وظائف دئیےجاتے ہیں تاکہ ان کی پڑھائی کا تسلسل نہ ٹوٹے اس کے ساتھ ساتھ شہر کے مختلف مقامات پر الیکٹرک کولرز لگوائے گئے ہیں۔

ڈاکٹر اسد امتیاز کہتے ہیں کہ وہ یہ سب کام کر کے فاطمہ کی یادوں کو زندہ رکھ رہے ہیں اور ایک طرح سے اپنی بیٹی کی زندگی جی رہے ہیں۔

فاطمہ اپنی زندگی میں کچھ بڑا کرنا چاہتی تھی اور وہ صرف انسانوں کا ہی نہیں پرندوں کے بارے میں بھی سوچتی تھی، روزانہ پرندوں کو دانا ڈالنا، چلچلاتی دھوپ میں پرندوں کی پیاس بُجھانےکے لئے چھت پر پانی رکھنا ان کا معمول تھا۔ چونکہ فاطمہ کو درختوں اور پرندوں سے پیار تھا اس لیے دو ہزار سے زیادہ درخت لگائے گئے ہیں جن کی دیکھ بھال کے لیے مالی مقرر ہیں، یار مددگار تنظیم کے ساتھ مل کر شہر کے مختلف علاقوں میں پرندوں کے رہنے کے لئے گھونسلے لگوائے گئے ہیں۔

اس کے علاوہ فاطمہ اسد کے نام سے ایک مدرسے کی تعمیر بھی جاری ہے جہاں بچیوں کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید علوم بھی سکھایا جائے گا۔

یہ تمام فلاحی کام ڈاکٹر اسد امتیاز کس طرح سر انجام دے رہے ہیں؟ اور ان کی مدد کون کر رہا ہے ؟اس بارے میں وہ کہتے ہیں کہ میں نے ان سارے کاموں کے لیے کبھی کسی سے چندہ نہیں مانگا، لیکن ایسا بھی نہیں کہ میں سب کچھ اپنی جیب سے کررہا ہوں۔ میرے کچھ قریبی دوست، رشتے دار اور صاحب ثروت مریض جو کہ مجھے ذاتی طور پر جانتے ہیں اور مجھے اعتماد دیتے ہیں، وہ ازخود ہی مجھے اس کار خیر کے لیے رقم پہنچا دیتے ہیں اس وعدے پر کہ ان کی تشہیر نہیں کی جائے گی تاکہ ان کا ثواب ضائع نہ ہو، بیرون ممالک سے بھی کچھ لوگ باقاعدگی سے پیسے بھیجتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر سفید پوش باپ کی طرح میرے ذہن میں بھی فاطمہ کی شادی کے بارے میں پلان تھا اور میں یہی سوچتا تھا کہ میری بیٹی اپنی شادی پر پچاس لاکھ سے ایک کروڑ روپے کا خرچہ کروائے گی، اور سچ پوچھیں تو میں نے اس کی شادی کے لیے مختص رقم سے ہی فلاحی کاموں کا آغاز کیا، جس میں اللہ تعالیٰ نے برکت ڈال دی۔

دوران انٹرویو فاطمہ کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ایک دن میں نے فاطمہ سے پوچھا کہ اگر تم میٹرک میں فرسٹ آئیں تو کیا گفٹ لو گی ؟تو کہنے لگی کہ آپ مجھے پلاٹ دے دینا، اتفاق سے وہ پلاٹ میں نے حال ہی میں خریدا تھا، فاطمہ کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد میں نے سوچا کہ اس پر اب میرا حق نہیں، وہ پلاٹ بیچ کر فاطمہ اسد ویلفیئر فاؤنڈیشن کے نام رقم جمع کروا دی۔ ڈاکٹر اسد امتیاز کی خواہش ہے کہ نیکی کا یہ کاروان روکنے نہ پائے اور فاؤنڈیشن سے ٹرسٹ بنے اور سب اس کارخیر میں حصؔہ ڈالیں۔

ڈاکٹر اسد امتیاز کے تین بچے اور بھی ہیں لیکن دوسال قبل اپنی بیٹی کی محبت سے سرشار ہوکر اس پروفیشنل ڈاکٹر نے اپنی زندگی کے اہداف ہی بدل ڈالے۔فاطمہ کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں روتا نہیں کیونکہ اگر میں رونے لگ گیا تو فاطمہ کا مشن کون پورا کرے گا؟ میں رونے لگا تو میرا دھیان بھٹک جائے گا اور باپ بیٹی کے درمیان جو وعدے ہوئے تھے وہ پورے نہ ہوسکیں گے۔ اس لیے میں رونے کی بجائے فاطمہ سے کیے وعدوں کو پورا کرنے کی طرف دھیان دیتا ہوں۔

ڈاکٹر اسد امتیاز کا یہ یقین کہ مرنے کے بعد انہیں اپنی بیٹی فاطمہ سے ملنا ہے تووہ یہ تمام فلاحی کام مزید تندہی سے سرانجام دیتے ہیں تاکہ وہ اپنی پیاری بیٹی کو یہ بتاسکیں کہ اس کے بابا اس سے کتنی محبت کرتے ہیں کہ اس کےدنیا سے چلے جانے کے بعد بھی ان کی محبت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے ،محبت کے لیے زندگی ضروری نہیں کیونکہ آج ڈاکٹر اسد امتیاز اپنی بیٹی فاطمہ کے خوابوں کو حقیقت کا رنگ دیکر اس کے مشن کو پورا کر رہے ہیں۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *