سانحہ پشاور: پاکستانیوں کا عزم، حوصلے اور ہمت کو نہ توڑ سکا


-1

سولہ دسمبر 2014 کو آرمی پبلک اسکول کے بچوں پر ٹوٹنے والی قیامت کوئی نہیں بھلا سکتا۔ اس دن دہشت گردوں نے پشاور آرمی پبلک اسکول میں خون کی ہولی کھیلی جس میں علم کے پروانوں کے بے گناہ لہو سے وحشت و بربریت کی نئی تاریخ رقم کی گئی۔ اس درد ناک سانحے میں 147 افراد شہید ہوئے جس میں 132 بچے بھی شامل تھے۔

تاہم اس سانحے میں محفوظ رہنے والے اس دہشت ناک واقعے کے صدمے سے باہر نکلنے کے لئے ابھی بھی کوشیشیں کررہے ہیں۔

الطاف حسین

Image Source: Twitter

اے پی ایس کے ٹیچر الطاف حسین اس سانحے میں شہید اپنی لخت جگر خولہ کو ابھی تک زندوں میں ہی شمار کرتے ہیں۔ حملے کے دن ان کی 6 سالہ کم سن بیٹی کا اسکول میں پہلا دن تھا۔ الطاف حسین اس سانحے کے زندہ بچ جانے والوں میں سے ایک ہیں جن کے سینے پر لگنے والی تین گولیوں کے باعث جگر اور پھیپڑوں کو نقصان پہنچا تھا ۔ خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے انگریزی کے استاد الطاف حسین نے حملے سے چار ماہ قبل ہی آرمی پبلک اسکول میں ملازمت کا آغاز کیا تھا۔

خولہ کی شہادت اور اس سانحے نے الطاف حسین کے پورے خاندان کو متاثر کیا ۔ لیکن زخم بھرنے کے تقریبا 4 ماہ بعد باہمت باپ نے پھر سے اسکول جانا شروع کردیا۔ لیکن خولہ کی غمزدہ والدہ دل کے امراض میں مبتلا ہوگئیں جبکہ خوف کے باعث ان کا بڑا بیٹا محمد ثمر ڈیڑھ سال تک نارمل نہ ہوسکا۔ بہن کے علاوہ دوسرے بچوں کو بھی اس حال میں دیکھنے والا محمد ثمر خود بچ نکلا لیکن تلخ اثرات کے باعث بات چیت بند کردی اور پڑھائی میں بھی انتہائی کمزور ہوگیا، اب آہستہ آہستہ محمد ثمر دوبارہ زندگی کی جانب لوٹ رہا ہے۔ الطاف حسین کی اہلیہ بیماری کے باوجود ان کا مشن آگے بڑھانے کیلئے مکمل حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ انہوں نے ایک بار اپنے آبائی علاقے ہزارہ واپسی کا فیصلہ کیا لیکن اہلیہ نے انہیں یہ کہہ کر روک دیا کہ ہماری بیٹی نے اس اسکول کے لیے اپنی جان دی ہے، آپ کو اسے عظیم بنانے کیلئے جدو جہد کرنی ہوگی۔

احمد نواز

Image Source: Twitter

اسکول پر حملے کے وقت احمد نواز اپنے آپ کو مردہ ظاہر کر کے جان بچانے میں کامیاب ہوئے، جب کہ انہوں نے اپنی استاد کو آگ لگانے کے خوفناک واقعے کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔

سانحہ اے پی ایس پشاور میں زخمی ہونے والے طالب علم احمد نواز کو حکومت نے سرکاری خرچ پر 2015 میں علاج کے لیے برطانیہ بھیجا تھا جہاں اُن کا علاج کوئین الزبتھ اسپتال میں ہوا، برطانوی ڈاکٹرز نے احمد نواز کا علاج کیا جس کے بعد وہ دوبارہ زندگی کی طرف لوٹ گئے اور پھر لندن میں ہی تعلیم کا آغاز کیا۔

پشاور میں آرمی پبلک سکول میں شدت پسندوں کے حملے میں اپنے ایک سال چھوٹے بھائی حارث نواز اور سو سے زائد اسکول کے ساتھیوں سے محروم اور خود موت کے منھ سے بچ جانے والے 17 سالہ طالب علم احمد نواز نے سانحہ سے پہلے کبھی بھی اسٹیج پر کھڑے ہو کر تقریر نہیں کی تھی۔ مگر اب ان کا شمار ان بہترین مقررین میں ہوتا ہے جو نوجوان طالب علموں کو انتہا پسندی سے بچنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ احمد نواز نے اپنے تجربے کو بانٹ کر انتہا پسندی کا شکار ہونے والے طلباء کو بچانے کے لیے برطانیہ کے تمام اسکولوں میں ایک مہم چلائی اور وہ ان 45 ہزار نوجوانوں میں شامل ہیں جن کو “شہزادی ڈیانا ایوارڈ” سے نوازا گیا ہے۔ جب کہ گزشتہ سال انہوں نے “گلوبل لیگیسی ایوارڈ 2019” حاصل کر کے عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کردیا۔

احمد جان

Image Source: Twitter


ہمارے اساتذہ نے ہمیں فرش پر لیٹنے کو کہا۔ گولیوں کی بارش کے دوران ، اللہ پاک نے مجھے محفوظ رکھا ، لیکن میں اپنے بھائی سے محروم ہوگیا ” ۔ دہشت گردوں کے اس حملے کے دوران دو گھنٹوں تک احمد جان اور ان کے دوست نے اپنے کلاس روم کے اندر چھپ کر شدید فائرنگ سے خود کو بچایا۔ لیکن افسوس احمد جان خود تو اس سانحے میں بچ گئے لیکن ان کا دوست جیسا بھائی شہید ہوگیا ۔احمد جان کہتے ہیں ، “میرا بھائی صرف میرا بھائی نہیں تھا ، وہ میرا سب سے اچھا دوست تھا۔”

اس واقعے کے گزرنے کے ایک مہینے کے بعد احمد جان واپس اپنے اسکول گئے ۔چیخوں، گولیوں کی گرگراہٹ ، اسکول کی درودیوار سے گونجنے والی ان ساتھیوں کی آہوؤں سسکیوں نے ان کا استقبال کیا اور غمزدہ دل نے ان کو واپس گھر جانے پر مجبور کیا لیکن ان کے قدم واپس نہیں پلٹے اور انہوں نے ہمت سے اس مشکل وقت کا سامنا کیا کیونکہ وہ انجینئر بننے کے خواب سے دستبردار ہونے کے لئےتیار نہیں۔

عبید ساجد

Image Source: Twitter

“میں اپنی تعلیم جاری رکھوں گا اور انجینئر بنوں گا ” اس عزم کا اظہار اے پی ایس کے ہونہار طالب علم اور حملے میں بچ جانے والے عبید سجد نے کیا۔ اسکول پر حملے کے وقت جب دہشت گردوں کی جانب سے فائرنگ شروع ہوئی تو عبید آڈیٹوریم میں تھے جہاں کا پچھلا دروازہ ٹوٹ گیا اور مسلح افراد اندر داخل ہوگئے۔ عبید نے جان بچانے کے لئے دوسرے دروازے کی طرف بھگانا چاہا لیکن مسلح دہشت گردوں نے اسے چار بار گولی ماری جو اس کے دونوں بازؤوں کو زخمی کر گئیں۔پھر جب حملہ آور وہاں سے باہر نکلے تو وہ چھپنے کے لئے لائبریری کی طرف بھاگا۔ عبید اپنے زخمی بازؤوں کی وجہ سے اپنے دوستوں کی مدد کرنے میں ناکام رہا۔

عبید کے زخم بھر رہے ہیں اور اب وہ آہستہ آہستہ صحت یاب ہو رہے ہیں ۔اس حملے کا سامنا کرنے کے بعد ان کے لئے اپنے تعلیمی سلسلے کا آغاز کرنا مشکل تھا اس کی وجہ ان کی چوٹ نہیں بلکہ دوستوں کی شہادت تھی ۔۔لیکن اب انہوں نے اپنے دکھ وخوف کو پس ِپشت ڈال کر دوبارہ اپنی تعلیم جاری رکھنے کا تہیہ کرلیا ہے۔

ان چند کہانیوں کے علاوہ آرمی پبلک اسکول کے حملے میں بچ جانے والے دیگر طلباء، اساتذہ اور عملے کے لوگ اس دردناک واقعے کی جسمانی اور ذہنی تکالیف سے باہر نکل کر اب دوبارہ اپنی زندگی کی جانب گامزن ہورہے ہیں۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا افسوسناک ترین واقعہ ہے ، اس سفاک حملے نے کئی بے گناہ جانیں لے لیں اور ملکی تاریخ میں اس واقعے کو کبھی بھی بھلایا نہیں جاسکتا۔


Like it? Share with your friends!

-1

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *